ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا روز مرہ زندگی کے معمولات کا حصہ ہے اور انسان صدیوں سے سفر اختیار کرتا چلا آ رہا ہے اسی لئے سفر وسیلہ ظفر کا محاورہ بھی زبان زد عام ہے۔ روزگار، تجارت و معاشی ضروریات کی تکمیل کیلئے سفر کو باعث برکت خیال کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں یہ سفر معاشی ضروریات کے علاوہ دیگر معاشرتی ضروریات کی تکمیل کیلئے بھی طے کیا جاتا ہے۔ اور یہ معاشرتی ضروریات آجکل اس قدر لازم ہیں کہ اب کسی شخص کا پرسکون گھر پڑے رہنا محال ہو گیا ہے۔ خصوصاً شہری آبادی میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ رات یا دن کا کوئی بھی پہر ہو شہر کی سڑکوں پر ہر لمحہ ٹریفک کا اژدھام نظر آتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہر ڈرائیور اس قدر اجلت میں دکھائی دیتا ہے کہ وہ ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے دکھائی دیتے ہیں مگر انہیں اپنی قیمتی گاڑی کے نقصان کا قدرے زیادہ احتمال ہوتا ہے لہذا وہ مجبوراً کچھ خیال رکھ لیتے ہیں مگر موٹر سائیکل سواروں کی بڑی تعداد موٹر سائیکل کم چلاتے ہیں اوراپنے فن کا مظاہرہ زیادہ کرتے ہیں۔ شاید موٹر سائیکل، سواری ہی ایسی ہے کہ اس پر بیٹھ کر لہرانے، گھومنے، لٹکنے، مٹکنے اور پہیے گھمانے کو جی چاہتا ہے۔ اس پر بیٹھ کر سنجیدہ افراد بھی غیر سنجیدہ حرکتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سڑک کے درمیان کیا انتہائی دائیں جانب چلنا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ سڑک گاڑی والوں کیلئے ہی نہیں ہمارے لئے بھی ہے۔ بہر حال یہ مسابقتی مسائل اپنی جگہ پر لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں یہ سواری بہت سے کم آمدن شرکاء کیلئے کم خرچ ذریعہ آمدورفت ہے۔ متوسط گھرانوں کے افراد ’’اپنی سواری‘‘ کی سہولت سے استفادہ کرتے ہیں اور انتہائی احتیاط سے سڑک پر آتے جاتے ہیں لیکن ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔عمومی طور پر موٹر سائیکل کو نوجوانوں کی سواری خیال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ موٹر سائیکل سواروں میں زیادہ تر نوجوان ہی نظر آئینگے لیکن چونکہ جوانی مستانی ہوتی ہے لہذا نوجوان موٹر سائیکل سوار اکثر مستیاں کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ویلنگ کرنا بھی تو اسی ’’مستی‘‘ کی ایک شکل ہے۔ ان نوجوانوں کو لاکھ سمجھائیں کہ بیٹا ایسا نہ کرو… گر جائو گے… کہتے ہیں نہیں گرتا… موٹر سائیکل تیز مت چلانا حادثہ ہو سکتا ہے… کہتے ہیں نہیں ہوتا میں بریک لگا لوں گا… نوجوانوں میں دراصل اعتماد کا ایک فطری جذبہ موجود ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ ایسے جوابات دیتے ہیں۔ مگر سپیڈ (تیز رفتاری) تمام خود اعتمادی یا اندازوں کو غارت کردیتی ہے نتیجتاً آئے دن سڑکوں پر ملتا ہے۔جس طرح یہ حادثات زندگی کا معمول بنتے جا رہے ہیں اسی طرح ان واقعات کے ردعمل میں بے حسی بھی معمول بنتی جا رہی ہے۔ موٹر سائیکل حادثات میں اس قدر اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ شاید ہی کوئی گلی محلہ ایسا ہو جہاں کسی نہ کسی نوجوان کی یہ کہانی نہ ہو۔ واضح رہے کہ اس کہانی کا بڑا اور بنیادی سبب ’’تیزرفتاری‘‘ ہوتا ہے۔موٹر سائیکل سے جڑی ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ معاشرے میں اکثر سٹریٹ کرائمز، اکثر دہشت گرد وارداتیں، اکثر قتل اور ڈکیتی وغیرہ کی وارداتوں کے پیچھے مجرم کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی موٹر سائیکل کا ہاتھ بھی ضرور ہوتا ہے۔ کیونکہ تیز رفتاری اور تنگ و تاریک گلیوں سڑکوں پر دائیں بائیں بھاگنے اور پولیس سے بچ نکلنے میں مجرم کی معاونت کرنے میں موٹر سائیکل کا کوئی ثانی نہیں۔ اگر تحقیق کی جائے اور گزشتہ تین ماہ کی وارداتوں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ 95 فیصد وارداتوں میں موٹر سائیکل استعمال ہوا ہے اور مجرم بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے… دیکھا جائے تو موٹر سائیکل تو درمیانے طبقے کی سواری ہے اور اس کا مقصد بنیادی طور پر شہر کے اندر ہی چھوٹے موٹے فاصلے طے کرنا ہے۔ دفتر آنا جانا یا ضروریات زندگی کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا ہے وغیرہ۔ اس سواری کا ہرگز ہرگز مقصد دوڑیں لگانا، کرتب دکھانا یا وقت بچانا نہیں ہے یہ کوئی بلٹ ٹرین نہیں ہے کہ یہ پلک جھپکنے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے بلکہ یہ خراماں خراماں چلانے کی چیز ہے تاکہ سواری بھی محفوظ رہے اور سوار بھی بلکہ دوسرے افراد بھی چونکہ یہ دو پہیوں کی سواری ہے لہذا یہ سواری انتہائی احتیاط کی متقاضی ہے۔ مگر یہ سب کچھ سب کو سمجھانا اور اس پر عمل کرانا کسی اسٹیٹ یا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے کہ کل سے سب لوگ موٹر سائیکل انتہائی احتیاط سے چلانا شروع کر دیں اور نتیجتاً قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ جائیں۔ ہاں اگر ارباب بست و کشاد کچھ کر سکتے ہیں تو!
موٹر سائیکل کی سپیڈ یعنی انتہائی حد کو کم کیا جا سکتا ہے۔ موٹر سائیکل کی سپیڈ یعنی تیز رفتاری ایک ایسا امتیاز ہے کہ جسکی بنا پر مجرم بھاگنے کیلئے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح ٹریفک حادثات کا بڑا سبب بھی تیزرفتاری ہے جسکی بنا پر موٹر سائیکل سوارحادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر موٹر سائیکل کی حد رفتار کو کم کر دیا جائے تو نہ صرف جرائم کی وقوع پذیری کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ حادثات کی روک تھام بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے ارباب اختیار کو موٹر سائیکل ساز کمپنیوں کو بس آرڈر جاری کرنا ہے کہ آئندہ موٹر سائیکل کے سپیڈو میٹر کی حد رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ نہ ہو۔ یقیناً جب موٹر سائیکل 40,50 کلو میٹر کی رفتار سے سڑکوں پر رواں دواں ہونگے تو لازمی طور پر نوجوانوں میں دوڑیں لگانے کا رجحان، اوورٹیک کرنے، کرتب دکھانے اور خراٹے بھرنے کا رجحان کم بلکہ ختم ہو جائیگا… گویا حادثات کم ہونگے… گویا قیمتی جانوں کا نقصان کم ہو گا اور دوسری طرف موٹر سائیکل کی سپیڈ کم ہونے کی بنا پر مجرموں کیلئے پولیس سے بچ نکنا بھی آسان نہ رہے گا… ہاں اس مقصد کیلئے پولیس کو ایلیٹ فورس کے نوجوانوں کو مہیا کئے گئے موٹر سائیکلوں کا سپیڈو میٹر یقیناً عوام کے پاس دستیاب موٹر سائیکلوں کے میٹر سے زیادہ ہونے چاہئیں۔