کابل ( بی بی سی +آن لائن) افغانستان میں طالبان کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کا زیادہ تر نشانہ غیر ملکی اور حکومتی اہلکار کئی ملک چھوڑ گئے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق دارالحکومت کابل کے لیے عسکریت پسندوں کی طرف سے حملوں کے خطرات نئی بات نہیں ہیں۔ 35 لاکھ کی آبادی والا یہ شہر 2001ء میں امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے کبھی بھی پْر سکون نہیں رہا۔ تاہم گزشتہ ماہ کے دوران حکومتی اہلکاروں اور غیر ملکیوں پر کیے جانے والے خوفناک حملوں کے بعد لوگ پریشان ہیں کہ طالبان کی طرف سے ہر سال موسم بہار کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہونے والے حملے اس برس کس قدر خوفناک ثابت ہوں گے اور نیٹو فورسز کی واپسی کے بعد افغان سکیورٹی فورسز طالبان کے خلاف کس حد تک کار گر ثابت ہو سکیں گی۔کابل میں کام کرنے والے ایک وکیل محمد عارف شاھیم نے خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کیا تھا، ’’حکومت ہر حوالے سے اپنا کنٹرول کھو رہی ہے۔‘‘ان کی ساتھی ماہرہ فیض اْس خوفناک لمحے کو یاد کرتی ہیں، جب مئی میں وزارت انصاف کی عمارت کی پارکنگ میں ایک کار بم دھماکا ہوا۔ اس دھماکے کے بعد افواہ پھیل گئی کہ برقعوں میں ملبوس طالبان عمارت میں داخل ہو گئے ہیں: ہم فوری طور پر باہر نکلے اور چند منٹوں میں ہی عمارت خالی کر دی گئی۔‘‘گزشتہ ہفتے کابل کے مرکزی حصے میں واقع لڑکیوں کے ایک اسکول کے بارے میں یہ خبر پھیل گئی کہ وہاں شدت پسندوں نے ایک بم نصب کر دیا ہے، جس کی وجہ سے سکول کو فوری طور پر خالی کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے بعض والدین اپنی بچیوں کو اسکول ہی نہیں بھیج رہے۔
داعش نے پہلی بار 10 طالبان کے سر قلم کر دیئے: افغان آرمی رپورٹ
Jun 05, 2015