خریداری گندم بہت خوب، ویلڈن شہباز شریف۔ مگر

الحمد اللہ موجودہ حکومت کاشت کاروں کی بہتری کیلئے متعدد اقدامات کر رہی ہے جس میں میاں نواز شریف (خدا انکو صحت دے) نے 341 ارب روپے کی خطیر رقم کا پیکج دینے کے بعد بھی موجودہ بجٹ میں 160 ارب روپے مزید تجویز کئے ہیں جوان لوگوں کی مجموعی بھلائی کیلئے خرچ کئے جائینگے۔ گندم کی فصل اہم ترین مسئلہ اسکی اچھے نرخوں خریداری ہوتی ہے جس کا ذمہ محکمہ خوراک اور پرائیوٹ سیکٹر نے اٹھایا ہوتا ہے۔ گذشتہ برس کی 22 لاکھ ٹن بچ جانے کے باوجود میاں شہباز شریف کا وژن تھا کہ 40 لاکھ ٹن گندم ہر حال میں 1300/- روپے من میں خریدی جائے تاکہ چھوٹے کسانوں کو اچھا ریٹ مل سکے۔ گذشتہ برس کی طرح اس بار بھی محکمہ خوراک کے ذمہ داران جن میں منسٹر خوراک بلال یٰسین، سیکرٹری خوراک ڈاکٹر پرویز خان اور ڈائریکٹر خوراک آصف بلال لودھی سر فہرست ہیں انہوں نے شہباز شریف کے دئیے ہوئے ٹارگٹ کو بڑی محنت اور جانفشانی سے مکمل کیا ہے اور باردانہ کی تقسیم سے لے کر تمام مراحل میں معمولی غلطیوں کے علاوہ بہتر انتظام کے ساتھ اس ٹاسک کو مکمل کرلیا ہے جس پر ویلڈن شہباز شریف اور انکی ٹیم کو بھی مبارک باد، ملک میںگندم کا ہونا ہمیشہ ایک اچھی بات ہوتی ہے کہ یہ اہم ترین انسانی خوراک ہے مگر اضافی گندم کا ہونا بعض اوقات خطرے کی اور نقصانات کی علامت بن جاتا ہے۔ گزشتہ برس اعلیٰ حکام کیساتھ CM صاحب کے کہنے پر ایک میٹنگ میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ اضافی گندم کو عالمی مارکیٹ کے تناظر میں TCP کے ذریعے ٹینڈر جاری کر کے فروخت کیا جائے اور افغانستان کی مارکیٹ کو جو تقریباً ہم سے چھین چکی ہے آٹا بھجوانے کیلئے عمومی طور پر گندم کا ریٹ 110 روپے کردیا جائے تاکہ Rebate اور جعلی ایکسپورٹ کرنیوالے سے ہٹ کر عام فلور ملیں بھی افغانستان کا کام کرسکیں اور اسطرح مارکیٹ بھی واپس آجائے اور ملکی عوام بھی سستے آٹے سے مستفید ہوسکیں وہاں یہ بات تسلیم نہ ہوسکی جس پر راقم نے کہا تھا کہ آئندہ برس یہ گندم پھربچ جائیگی اور محترم خضر حیات گوندل سے عرض کی تھی کہ آئندہ برس 16 اپریل کو مل کربتائوں گا کہ کتنی گندم بچ گئی اور کتنا نقصان ہوا۔ میں تو بتانے کیلئے تیار تھا 16 اپریل آئی ضرور مگر 23 لاکھ ٹن گندم بچ جانے سے اربوں روپے کے نقصان کی نوید سننے کیلئے خضرحیات صاحب موجود نہیں تھے کہ ان کا تبادلہ کردیا گیا تھا گویا یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں پالیسی بنانے والا کوئی اور اس پر عمل کروانے والا کوئی دوسرا اور اسکے نتائج بھگتنے والا کوئی اور ہی ہوتا ہے اور اسطرح تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ہم بہت پیچھے رہتے جا رہے ہیں آج حالت یہ ہے کہ پنجاب کے پاس 64 لاکھ ٹن گندم، سندھ کے پاس 17 لاکھ ٹن گندم کے پی کے کی خریداری جاری جبکہ پاسکو کے پاس بھی 17 لاکھ ٹن گندم موجود ہے۔ اگر حساب کیا جائے تو ان سب کے گوداموں میں اور گوداموں سے باہر ایک کروڑ ٹن سے زائد گندم ہوگی جو ہماری ضرورت سے 45 لاکھ ٹن زیادہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پنجاب کے ان افسران اور وزیراعلیٰ کی محنت کو وفاق Back up کرتا ہے اور گزشتہ برس کی غلطی کو نہ دھراتا جو اس نے ایکسپورٹ کے معاملہ پر کی اس بار بھی اسے چاہئے تھا کہ عالمی ٹینڈروں کے ذریعے ایک دفعہ اس اضافی گندم کو باہر بھیج دیتے اور جعلی ایکسپورٹ اور Reback پر خود خرچ کرتے ہیں وہ ٹینڈروں کے ذریعے خرچ کردیتے اور کم ریٹ پر بھی اپنی گندم باہر بھجوا کر مارکیٹ Establish کرتے ہیں مگر ایسا پھر نہیں کیا جس کی وجہ سے جعلی ایکسپورٹ جس کا کسی کو کئی فائدہ نہیں ماسوائے ان چند لوگوں کے جو اس میں ملوث ہیں۔ کہتے ہیں نا کہ ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘۔ اسلئے وفاقی حکومت کی وزارت متعلقہ ہوش کے ناخن لے کیونکہ جعلی ایکسپورٹ کو چھوڑ کرفلورملوں کو بیل آئوٹ پیکج دیکر اصلی آٹے کی افغانستان کو اور سمندر کے راستے اصلی ایکسپورٹ کر کے ملک کو اس اضافی گندم سے چھٹکارہ دلایا جائے جو دو سال سے پڑی ہے اور اب تیسرے سال کی گندم بھی اگر شامل ہوگئی تو یہ ملک کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔ اس سلسلہ میں پنجاب کی گندم کو حقیقی ایکسپورٹ کرنے کیلئے وزیراعلیٰ کو توجہ دینا ہوگی وگرنہ ہمارے متحرک افسران کی محنت ناکارہ ہو جائیگی کیونکہ Disposal کے بغیر یہی ہوگا کہ گندم تیسرے سال میں داخل ہو جائے گی ضائع بھی ہوگی اور اخراجات کی مد میں بھی اربوں روپے کے نقصانات بھی ہونگے۔ گویا ہمیں ایک ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جس میں پوری فلورملنگ انڈسٹری کو استعمال کرتے ہوئے اس اضافی گندم کا مسئلہ حل کیا جاسکے۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو!

ای پیپر دی نیشن