شہرِ اقتدار میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ سیاست دانوں کے ماضی کو کھنگالا جا رہا ہے۔ عمران خان اور شریف فیملی دونوں اپنے اپنے ماضی کی پریشان گلیوں میں مجبوری سے لوٹائے جا رہے ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا؛
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بیکار تمناو¿ں پہ شرمندہ ہوں میں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے
میرے ماضی کو اندھیروں میں دبا رہنے دو
میرا ماضی مری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں!
شبِ فراق کے ذکر پر ایوانوں میں اس قدر ہنگامہ مچ گیا کہ حواریوں کی زبانیں بے لگام ہو گئیں۔ کوئی کہنے لگا ہم لوہے کے چنے ہیں۔ کسی نے کہا کہ اوروں کے تابوت ہمارے ساتھ نکلیں گے۔ نہال ہاشمی نے تو غم و غصے میں ساری حدود کراس کر لیں اور تفتیش کرنے والے سرکاری
افسران و ججوں کے بچوں اور خاندانوں کیلئے سرزمیں پاکستان تنگ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔کہا جاتا ہے کہ غصے میں کہے گئے الفاظ کے پیچھے دل کے اندر کی کہانی سمندر کی لہروں کی طرح کناروں سے باہرچھلک اٹھتی ہے۔ خبر نہیں کہ یہ کسی بڑی سازش کا تسلسل ہے یا پنجاب سے نہال ہاشمی کو دی گئی سینیٹر شپ کی احسان مندی کا تقاضا۔ کچھ مشہور و معروف صحافی بھی عدالت اور جے آئی ٹی کے خلاف سٹوری بنانے کی کوششوں میں مصروف معلوم ہوتے ہیں۔ انداز مافیا جیسا ہی ہے۔ ججوں نے پہلے گاڈ فادر کا ذکر کیا اور اب سسلین مافیا کا۔ چھوٹے چھوٹے مافیا سے یہ شہر بھرا پڑا ہے۔ بیورو کریسی کا کنٹرول اور فائلوں کو پہیے لگانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔مگر سپریم کورٹ کے ججوں تک ان کی پہنچ ابھی نہیں ہوئی تھی۔ججوں کو خریدنے کاعمل جسٹس قیوم کی شکل میں ن لیگ کی تاریخ میں ہمیشہ رہے گا۔ مگر جب کوئی خریدا نہ جائے تو دھمکیاں دینا مافیا ہی کا مذہب ہوتا ہے۔ اٹلی کے جس جج کو 1979 ءمیں قتل کر دیا گیا تھا اس کا قول ہے؛ The mafia is oppression, arrogance, greed, self-enrichment and hegemony above and all others. یعنی مافیا ایک ظلم، تکبر، حرص، ذاتی نمود و نمائش اور تسلط کا نام ہے۔ یہ ہر چیز سے بالا ہوتا ہے۔ یہ کسی کے خلاف بھی کاروائی کر سکتا ہے۔ ان کا ایمان ہوتا ہے کہ پیسہ، پیسہ ہوتا ہے یہ نہ اچھا ہے نہ برا۔ نہ حلال ہے نہ حرام۔ نہ قانونی ہے نہ غیر قانونی۔ اس کے حصول کیلئے کبھی لوگوں کو خریدا جاتا ہے اور کبھی راستے سے زبردستی ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس میں دوست و دشمن کی بھی قید نہیں۔ملک و ملت کی بھی پرواہ نہیں۔ اقتدار لوگوں کی خدمت کیلئے نہیں بلکہ اپنی کاروبار ی سلطنت کی وسعت کیلئے حاصل کیا جاتا ہے۔ عوام کی تسلی کیلئے ایسے بڑے بڑے پراجیکٹس کی تشہیر دھوم دھام سے کیجاتی ہے جو ان غیر ملکی قرضوں سے چلائے جاتے ہیں جن کو سود در سود عوام کی آئیندہ نسلوں نے ادا کرنا ہوتا ہے۔عوام کی اکثریت کی غربت،جہالت ، بیماری اور کمزوری ان کے نظام کی مضبوطی کا ساماں بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتوں کو کبھی مضبوط نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی علم و ہنر کو عام کیا جاتا ہے۔ انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ عمر کوٹ سندھ میں ایک مسیحی سویپر گٹرکھولتے ہوئے جب بے ہوش ہوگیا تو سفید پوش ڈاکٹروں نے اس کو ابتدائی طبی امداد تک نہ دی۔کچھ نے کہا کہ روزہ ہے اور کچھ نے گندگی سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اس انسان کو ہسپتال میں تڑپتے ہوئے مرنے دیا۔ کہاں گئی ان کی مسیحائی؟ بی بی سی نے اس خبر کو سارے جہان میں نشر کر دیا ہے۔ آدمی کا پیشہ جو بھی ہو وہ سب سے پہلے بہترین انسان ہونا چاہیے۔ ہم نیوکلر پاور ہیں مگر انسانیت کے سکیل پر کس درجے میں ہیں؟ ہم نے یومِ تکبیر بھی منا لیا مگر کہاں ہیں وہ ہیروجنہوں نے دفاعی طور پاکستان کو صفِ اول کے سات ممالک میں کھڑا کر دیا؟ڈاکٹر قدیر کو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ان کے دستِ راست تھے۔ ان کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ میں ان کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ مجسمہ علم، عجز اور اخلاق ہیں۔ پہلے وقتوں میں بچے سات سال سے کم عمر سکول میں داخل نہیں کئے جاتے تھے۔ان کی بنیادی اخلاقی تربیت گھر میں ہوتی اور اس کی تکمیل سکول میں اساتذہ کرتے تھے۔ یہودیوں کے ہاں آج بھی یہی نظام ِتعلیم ہے۔ ذریعہ تعلیم ہبرو اور عربی ہے۔تعلیم لازمی ہے۔ پڑھی لکھی آبادی اٹھانوےفیصد ہے۔ بجٹ کا تعلیم پر 7.3% خرچ کیا جاتا ہے۔ماں باپ کی تعلیم کیا ہوتی تھی اس کی ایک جھلک طیب اردگان سے پوچھیے کہتے ہیںکہ میںنے بچپن میں اپنے بابا سے پوچھا کہ ہم ترک نسل ہیں یا عرب ہیں؟ بابا نے کہا کہ میں نے اپنے بابا سے یہی بات پوچھی تھی کہ ہم کون ہیں تو انہوں نے کہا کہ سنو! آخرت کی منزلوں میں پہلی منزل قبر ہے اس میں پوچھا جائے گا کہ تمھارا دین کیاہے؟ تمھارا رب کون ہے؟
تمھارے پاس کون شخص بھیجا گیا تھا؟ ؛ اس میں کہیں بھی تمھاری قومیت یا نسل کا ذکر نہیں ہے !! تیاری ان سوالوں کی کرو جو آخرت میں پوچھے جائیں گے۔ کیا ہم آخرت کو بھول نہیں چکے؟ آبادی پاکستان کا اولین مسلہ ہے۔ اس کی اکثریت نوجوان ہیں ان کی تعلیم و تربیت کی جائے تو یہ خزانہ ہے ۔ ان کو چھوڑدیا جائے تو یہ بوجھ ہے جو ملکی کشتی کو سہارا دینے کے بجائے ڈبونے کا ذریعہ بن جائے گا۔دنیا کے ہر ملک میں تعلیم کے بعد ورک فورس کی لگاتار ٹریننگ جاری رہتی ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی کمپنیاں اور سفارت خانے اپنے ملازمیں کو وقت کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ ہی نہیں values/ethic کی بھی تربیت دیتے ہیں۔ صدر مملکت کو اس شعبے کی کارکردگی بھی ملاحظہ کرنی چاہیے۔
ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اُسے بھی تھی!!
Jun 05, 2017