انسان کی قوتِ ارادی ایک ایسی مُعجز نُما طاقت ہے جس سے اگر صحیح معنوں میں کام لیا جائے تو قدم قدم پر مُعجزے کئے جا سکتے ہیں۔ کیا انسان کازمین سے اُٹھ کر چاند پر پہنچنا کسی معجزے سے کم ہے؟ کوئی تو ہو گا جس نے بغیرکسی سیڑھی کے، بغیرکسی سہارے کے چاند پر پہنچنے کے لئے پہلے اپنی ذہنی وروحانی طاقتوں کوایک نقطے پر مُرتکز کیا ہو گا، پھر خود کو اُس پر بیٹھے ہوئے دیکھا ہو گا، پھر کوشش کی ہو گی اور آخرکار اُس پر پہنچ گیا....جبکہ یہ تصور تک محال ہے کہ اُس نے آسمان کی بیکراں وُسعتوں میں چاند کی صحیح سمت کس طرح متعین کی ہو گی؟ وہاں سانس لینے کا کیا چارہ کیا ہو گا؟ اب سوچنا یہ ہے کہ آخر ہر انسان اپنی اس خفیہ اور خفتہ طاقت سےاس طرح کام کیوں نہیں لے سکتا یا کیوں نہیں لیتا جس طرح چاند پر پہنچنے والے یا دریاﺅں کا کلیجہ چیر کر اُس پرکشتیاں چلانے والے یا موت سے پنجہ آزما دوائیاں ایجاد کرنے والے شخص نے لیا ہو گا؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے یہ معجزاتی قوت تمام انسانوں میں برابر تقسیم کی ہے بلکہ اگر انسان اپنی اس کرشمہ ساز قوت کو بتدریج develope اور Improve کرے تو وہ Telepathy کہلاتی ہے جو قوتِ ارادی سے کوئی قدم آگے کی چیز ہے!
ٹیلی پیتھی، ہمارے اندر ایک وائرلیس سیٹ کی طرح نصب ہوتی ہے یہ اتنی تیز Correct اور Defenate ہوتی ہے کہ اپنے ہدف کو صحیح نشانے پر جا لیتی ہے۔ یہ باقاعدہ Hint کرتی ہے اور Hit کرتی ہے یہاں تک کہ جس شخص کے بارے میں یاحوالے سے آپ جیسا سوچیں گے وہ ’انہی الفاظ میں‘ اُسی تاثر کےساتھ آپ کے بارے میں سوچے گا آپ سے آ کر بات کرے گا بلکہ یہ تک بھی ممکن ہے کہ جس لباس میں آپ نے اُس سے ملاقات کاسوچاہو گا وہ عین اُسی لباس میں آپ کے سامنے آموجود ہو گا گویا آپ کی ٹیلی پیتھی ایک راڈار کی طرح کام کرے گی جس میں آپ کا مطلوبہ اور پسندیدہ پرنٹ اُسکے ذہن کی سطح پر جا اُترے گا اور وہ وہی لباس چُن کر پہن لے گا۔ بہرحال یہ طاقت ہر لمحہ بڑھائی جا سکتی ہے یہ کم نہیں ہوتی، باسی نہیں ہوتی ہے بلکہ دن بدن نِکھرتی ہے جس طرح ٹیلی فون کسی کی انتہائی مضبوط ٹیلی پیتھی کا ایک جامد و ثابت معجزہ ہے۔ اسی طرح عشق و محبت کے سچے جذبات کا طالب و مطلوب تک بغیر کسی وساطت کے پہنچ جانا بھی اسی قوت کا کرشمہ ہے۔ گو کہ میرے نزدیک عشق و محبت عورت کے فریب ذات اور مرد کی مقصد براری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے تاہم بطور کھرے جذبے کے اِس پر ایمان رکھا جا سکتا ہے کیونکہ یہ عارضی طور پر سہی۔ ٹیلی پیتھی کے حوالے سے فوری موثر ہوجاتا ہے۔ بہرحال بات پھر قوتِ ارادی کی آ جاتی ہے۔ یہ غیر معمولی طور پرفعال اورموثر قوت ہے اس کے سہارے ہم جو چاہیں جب چاہیں جتنا عمل چاہیں کر سکتے ہیں اس سے مثبت فائدہ اُٹھانا انسان کی اولین ترجیح ہونی چاہئے جبکہ اِس طاقت کو خوابیدہ حالت میں رہنے دینے میں خود انسان کا خسارہ ہے اور تو اور بُرے سے بُرے کام کی تکمیل کے لئے بھی آپ کو اپنی اسی خفیہ قوت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ غموں اور دُکھوں سے نجات پانے اور مشکل سے مشکل ترکام کو کر گزرنے میں بھی یہ طاقت اکسیر کاحکم رکھتی ہے اس قوت سے آشنا ہونے میں دیر ہو سکتی ہے مگر جب ایک بار اس سے آشنائی ہو جائے تو آپ اس سے ناممکن سے ناممکن اور غیر معمولی اور ناقابل یقین کام لے کر قدم قدم پر فاتح ہو سکتے ہیں۔ اس کی وساطت سے بیماریوں سے لڑا جا سکتا ہے، بڑھاپے کو رد کیا جا سکتا ہے یہاں تک کہ موت کو بھی موخر کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک اور بات ذہن میں یہ رکھنی چاہئے کہ اس قوت کو بیدار رکھنے اور Develope کرنے کے لئے سب سے پہلے انسان کو قوتِ ارتکاز یعنی Concentration کی عادت ڈالنی ہوگی اس عادت کی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ انتہا بھی آ جاتی ہے کہ جب ہم اپنی قوتِ ارادی یا Telepathy سے کسی کام کے سلسلے میں یہ کہیںکہ ”ہوجا“ تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
-1 مثال کے طور پر کسی رات کو آپ کو نیند نہیں آ رہی ہے نیند کی گولی کھانے کی ضرورت پڑ گئی ہے لیکن ٹھہرئیے پہلے آپ اپنے شعور کے ساتھ بات کر لیں بلکہ اُسکے ساتھ سمجھوتہ کر لیں کہ آپ گولی نہیں کھائیں گے اور فطری نیند سوئیں گے تو یہ بات آپ کے شعور سے لاشعور اور پھر تحت الشعور تک پہنچ جائیگی۔ آپ یہ الفاظ دُہراتے دُہراتے آنکھیں بند کر لیں کہ مجھ سخت نیند آ رہی ہے۔ میری تو نیند سے آنکھ ہی نہیںکھل رہی صبح آٹھ بجے بیدار ہونگا۔ تو آپ یقین کریںآپ کے تینوں شعور آپ کا حکم مان کر آپ کو تھپک تھپک کر سُلا دینگے اور آپ اگلے روز عین صبح 8 بجے بیدار ہونگے۔
-2 آپ کسی کے بارے میں مسلسل پیار سے یا نفرت سے سوچیں تو دونوں خالص جذبوں کی حِدت اپنی اصل صورت میں مطلوبہ شخص تک جا پہنچے گی۔ چاہے وہ کتنا ہی دورکیوں نہ ہو) چنانچہ بوقتِ ملاقات آپ کواپنے ہی جذبوں کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سو اپنے جذبوں کو خاص اور کھرا رکھئے کیونکہ اُن کا ردعمل کو خود ہی برداشت کرنا پڑے گا گوکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام تر طاقتیں صرف کرنے کے باوجود انسان کو اسکی واضح منزل نہیں مل پاتی اور وہ تھک سا جاتا ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں اس میں بھی آپ کی قوت ارادی کے طاقتور یا مضبوط ہونے پر حرف نہیں آ سکتا خود آپکی اپنی کوشش میںکوئی کسر کمی یا بے ایمانی رہ جاتی ہو گی۔کائنات پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسان کی خواہشات اور خواہشات کی تکمیل ہی سے جاری و ساری بلکہ مکمل ہے ورنہ اگر ایسی قوتیں پُراسرار انداز سے برسرِ عمل نہ ہوئیں تو ظاہر ہے نظامِ کائنات رُک جاتا لیکن اگر ابتک ایسا نہیں ہوا ہے دُنیا کا توازن نہیں بگڑا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی قوتوں سے آگاہ ہو گیا ہے۔ اپنی قوتوں کا استعمال جان گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ خودشناس و خود آگاہ لوگوں کی تعداد کا تناسب بہت کم ہے جبکہ علامہ اقبال بھی فرماتے ہیں۔
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
ذاتی طور پر میں سمجھتی ہوں کہ اگر سب لوگ اپنے اپنے طور پر خودشناسی کی کوشش کریں تو اُن میں آہستہ آہستہ خود آگہی بھی آ جائے گی اور جب خود آگاہی آ جائے گی تو اُن کی قوتِ ارادی بھی اپنا مرکز پکڑ لے گی/ انسان کیلئے تسخیر ذات یا تسخیر کائنات کے حوالے سے ہر درد کاکوئی تعین نہیں کیا گیا یہاں تک کہ علامہ اقبال نے ایک بار پھر فرمایا
دردشتِ جنون من جبرئیل زبُوں میدے
یزداں بکمند آرور اے ہمتِ مردانہ
”قوتِ ارادی“ مُعجزنُما طاقت ہے“ فائدہ اُٹھائیے
Jun 05, 2018