دور جوانی‘ امیر المومنینؓ کی حیات کا اہم ترین اور حساس ترین دور تھا اس دور میں آپؓ میں ممتاز اور نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ آپؓ کھلے ذہن کے مالک تھے۔ آپؓ میں حق و صداقت اور جدید افکار نظریات قبول کرنے کی صلاحیت پائی جاتی تھی۔ حضرت علیؓ کی ایک اور صفت ‘ بلند ہمتی اور جوانمردی تھی۔ ایام جوانی میں آپکی سوچ کا مرکز و محور محض اپنی ذات اور اپنی ذاتی مستقبل کی تعمیر نہ تھی۔ بلکہ آپؓ امت کے روشن مستقبل کے بارے میں سوچتے تھے اور آپؓ کی تمام تر وابستگی اسلام کے ساتھ تھی۔ آپؓ کی فکر ذاتی خواہشات اور شخصی آرزوؤں سے بلند تھی۔عمر کے اس حصے میں خوداعتمادی بھی حضرت علیؓ کی ایک منفرد صفت تھی۔ باوجود کہ آپؓ کم سن تھے اور ایک ایسے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے تھے جہاں عمراور جسمانی طاقت کو معیار فضیلت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حضرت علیؓ نے ان رسوم و روایات اور زمانہ جاہلیت کے معیارات سے ماورا قدم اٹھایا اور جسمانی طاقت اور عمر رسیدگی جیسے معیاروں کو ایک طرف رکھتے ہوئے خدا پر بھروسہ اور اپنی خود اعتماد کے بل بوتے پر خطرناک ترین حوادث کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور مشکل ترین حالات میں اپنی کامیابی کے پرچم نصب کئے اسکی ایک مثال جنگ خندق ہے۔ جب جنگجو اور دیو پیکر پہلوان عمر بن عبدود نے میدان میں اتر کر مسلمانوں کو للکارا تو لشکر اسلام پر سناٹا طاری ہو گیا۔ اس موقع پر رسول اﷲﷺ کی آواز بلند ہوئی۔ تم میں کوئی ہے جو عمرو کے مقابلے میں آئے۔ یہ سن کر حضرت علی ابن ابی طالب کھڑے ہوئے اور کہا اے اﷲ کے رسولؐ میں اس کا مقابلہ کروں گا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا جانتے ہو کس سے مقابلے کی بات کر رہے ہو۔ یہ عمرو ہے؟ آپؓ نے جواب دیا ہاں! اﷲ کے رسولؐ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں اور میں بھی علیؓ ہوں۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیﷺ کے وصال کے بعد امت مسلمہ کے درمیان وجود میں آنے والی ایک انحرافی لہر کے خلاف آپؓ نے نہایت دانشمندانہ انداز سے قائدانہ کردار ادا کیا۔ آپؓ کا یہ کردار آخر کار آپؓ کی دینی اور شرعی قیادت پر منتج ہوا۔ جس کیلئے خداوند عالم نے آپؓ کو منتخب کیا۔ اس دور میں آپؓ نے اسلام سے مخلصانہ وابستگی رکھنے والے ایک گروہ کی تربیت کی جو بگاڑ اور باطل کے خلاف ایک عوامی تحریک اور انقلاب کا باعث بنا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ جیسے اصحاب جنہوں نے اموی استبداد کے خلاف کلمہ حق بلند کیا اور حضرت عمار یاسر ؓ نے بھی نہایت فعال اور سرگرم کردار ادا کیا۔ اسی طرح محمد بن ابی بکرؓ مالک اشترؓ اور ہاشم مرقال جیسے جلیل القدر افراد اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔
دور آخر میں آپؓ کے جسم مبارک پر پیرانہ سالی اپنے اثرات جما چکی تھی۔ تغیرات زمانہ اور مختلف حوادث کے بعد حکومت اسلامی کی باگ ڈور آپؓ کے سپرد کی گئی اپنے انتہائی مختصر دور حکومت میں آپؓ نے ایک اسلامی حکمران کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کیا۔ اسلامی احکام کے اجرا و نفاذ میں کسی طرح کی تاخیر کو روانہ سمجھا اور تمام تر مشکلات اور دشوار حالات کے باوجود دنیا کے سامنے اسلام کے نظام عدل اجتماعی کی بے عیب تصویر پیش کی۔ آپؓ نے معاشرتی عدل و انصاف کی خوبصورت ترین تصویر پیش کی اور اپنے دور اقتدار میں اپنے اقرباء میں سے کسی کو بھی دوسروں پر ناحق ترجیح نہ دی اور حقوق کے مسئلے میں اپنے دوست احباب حتیٰ کہ اپنے بھائی سے بھی کوئی رو رعایت نہ برتی۔
امیر المومنین حضرت علیؓ اسلام کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔ تمام تعریفیں اﷲ کیلئے ہیں جو تمام عالمین کا رب ہے جس نے اسلام کا قانون معین کیا تو اسکی ہر گھاٹ کو وارد ہونیوالے کیلئے آسان بنا دیا۔ اور ہر مقابلہ کرنے والے کیلئے مستحکم بنا دیا اور دین اسلام میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ اﷲ نے دین اسلام کی وابستگی اور اختیار کرنے والے کیلئے اسے جائے امن اور اسکے دائرہ میں داخل ہو جانے والوں کوکیلئے برہان اور اپنے وسیلے سے مقابلہ کرنے والوں کیلئے شاہد قرار دیا ہے۔
٭٭٭٭