نجم سیٹھی صاحب پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم کی جرسی سے سبز رنگ کی پٹی غائب ہوئی اور اب وویمن کرکٹ ٹیم کی شرٹ کے سامنے والے حصے سے" پاکستان" لکھنے کے بجائے ایک سپانسر کا نام لکھ دیا گیا ہے۔ آپ کہاں ہیں قوم ڈھونڈ رہی ہے کہ آپکی موجودگی میں ایسی فاش غلطیاں کیسے ہو سکتی ہیں۔یہ کون لوگ ہیں جو ایک ایک کر کے ہماری ٹیموں کے لباس سے ملکی شناخت کو ختم کرتے جا رہے ہیں۔قوم پوچھ رہی ہے کہ کیا ہم نے آپکو اتنی محبت، حوصلہ افزائی اور اعتماد اس لیے دیا تھا کہ آپ کے ماتحت ایک ایک کر کے ہمارے کرکٹرز کے لباس سے پاکستان کا نام غائب کرتے جائیں۔ کیا آپکے ماتحت ابھی تک چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے جاری ہونیوالے تعریفی خط کے خمار میں ہیں کہ ایسی فاش غلطیاں کرتے جا رہے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان وویمن کرکٹ ٹیم ملائشیا میں ایشیا کپ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ ٹورنامنٹ کے مقابلوں میں شریک ہے۔ ایونٹ میں شریک ٹیموں کی کپتانوں کے گروپ فوٹو میں عجب منظر تھا تمام ٹیموں کی کپتان آفیشل کٹ میں موجود تھیں سب کی شرٹس کے سامنے والے حصے پر ان کے ملک کے نام نمایاں انداز میں لکھے اور باآسانی پڑھے جا سکتے تھے صرف ایک کپتان ایسی تھی جسکی شرٹ پر اسکے ملک کے نام کے بجائے ایک سپانسر کا نام لکھا ہوا تھا۔ اس مسئلے پر ماہرین نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔ چند دنوں میں ایک ہی جیسے دو واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ قومی ٹیموں کی شرٹس سے پیسہ حاصل کر نے کے لیے پاکستان کے نام پر سمجھوتہ کیا جانا پالیسی کا حصہ بن چکا ہے ورنہ یہ کبھی نہ ہوتا کہ آئر لینڈ کے خلاف ہماری ٹیسٹ ٹیم کی جرسی سے سبز رنگ کی پٹی غائب ہو جاتی اور اس کے چند دن بعد جب وویمن ٹیم ایشیا کپ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ ٹورنامنٹ کے مقابلوں میں شرکت کے لیے میدان میں اترے تو اسکی شرٹ پر بھی سپانسر کے نام کو ملک کے نام پر اہمیت دے دی جائے۔ یہاں بہت سے لوگ اسکو قانونی ثابت کرنے کے لیے مختلف دلائل دیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سپانسر شپ کی اہمیت صرف ہمارے لیے ہے، کیا ہم سے زیادہ اس کام کو کوئی نہیں سمجھتا، کیا کرکٹ کھیلنے والے دیگر ممالک کے کرکٹ بورڈز کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے افراد کو اپنی ٹیم کی شرٹ کا سامنے کا حصہ بیچنے کے لیے کوئی سپانسر نہیں ملتا۔۔۔۔ یقینا ایسا نہیں ہے۔ یہ واقعہ واضح طور پر ترجیحات کے تعین کا مظہر ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض معاملات میں روایات کو قوانین سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور قوانین بھی روایات کے تابع ہوتے ہیں اور انہیں قوانین سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کسطرح"پاکستان" کے نام کی جگہ سپانسر کے نام کو دے سکتا ہے۔ ٹیسٹ فاسٹ باولر عطائ الرحمان کا کہنا ہے کہ وویمن کرکٹ ٹیم کی شرٹ سے پاکستان کے نام کا غائب ہونا ٹاپ آفیشلز کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید کی ذمہ داری صرف غیر ملکی دورے کرنا اور ٹھنڈے کمرے میں بیٹھے رہنا ہے۔ جب ملک بیچنے والے لوگ بورڈ میں موجود ہونگے تو شرٹ سے پاکستان کا نام غائب ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
ایشیا کپ میں شریک ٹیموں کے کپتانوں کی شرٹس کو دیکھیں تو سب کے ملکوں کے نام واضح اور نمایاں ہیں۔ ہماری وویمن ٹیم کی شرٹ کے پچھلے حصے پر جھنڈا لگا کر اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چند دن بعد اس جھنڈے کی جگہ بھی کسی سپانسر کو دے دی جائے گی اور کہا جائیگا کہ سبز رنگ پہننے کا مطلب یہی ہے کہ یہ پاکستان کی ٹیم ہے۔ پھر کسی سپانسر کے کہنے پر اس سبز رنگ میں بھی کسی اور رنگ کی آمیزش کر دی جائے گی اور کہا جائیگا کہ جدید دنیا میں ڈیزائننگ کرتے ہوئے ایسے تجربات کیے جاتے ہیں پھر آہستہ آہستہ سارا رنگ ہی بدل دیا جائیگا۔ بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں سب ٹیمیں اپنے جھنڈے کے رنگ اور ملکوں کے ناموں کے ساتھ اترا کریں گی اور جو ٹیم ان بنیادی چیزوں سے محروم ہو گی وہ ہماری ہو گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی رنگ برنگے لباس پہنے ہونگے اور اسی وجہ سے پہچانیں جائیں گے۔ کرکٹ بورڈ والے اس پر کہیں گے کہ دنیا بدل چکی ہے مارکیٹنگ اور بزنس کے تقاضے بدل چکے ہیں اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں سپانسرز کی بھی ڈیمانڈ ہے سو ہماری مجبوری ہے۔ رہی بات روایات اور آئی سی سی کے قوانین کی تو ہم ان سے بھی بات کر کے اور اس مسئلے کو بھی حل کر لیں گے۔ کیا کرکٹ بورڈ کا یہ طرز عمل قابل قبول ہے، کیا پی سی بی مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کو اس طرح کے تجربات کی اجازت دی جانی چاہیے۔ یقینا نہیں پاکستان کے رنگ اور ملک کے نام پر کوئی بھی رعایت نہیں دی جا سکتی کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی حکمت عملی و منصوبہ بندی کے تحت ہونیوالی یہ غلطی کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کریں اور ایسے تجربات کرنیوالوں کو کڑی سزا دیں۔ رہی بات اس کماو شعبے کی تو اس کی کارکردگی بتانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ پی ایس ایل کی ایک فرنچائز نے پرائیویٹ سیکٹر میں ایک کمپنی سے کروڑوں کی سپانسر شپ چند دن کے ایونٹ کے لیے حاصل کر لی تھی اور یہ شعبہ اس کمپنی سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے سپانسر شپ حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی اس شعبے کے لیے ذاتی حیثیت میں کتنا کام کرتے ہیں جس وجہ سے بہت سے لوگوں کی کارکردگی چھپی رہتی اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔وویمن ٹیم کی شرٹ سے"پاکستان" غائب کرنیکی غلطی کرنیوالوں سے کوئی رعایت کی جانی چاہیے، کیا سبز رنگ اور سبز ہلالی پرچم کو پیسوں کے پلڑے میں تولنا درست عمل ہے، کیا دنیا میں ایسا تماشا بنانیوالوں کو کھلی چھٹی ملنی چاہیے یقینا نہیں۔
کامیابیوں کا کریڈٹ بورڈ چیئرمین کو ملتا ہے تو ایسی غلطیاں بھی انکے کھاتے میں جائیں گی دیکھنا یہ ہے کہ بورڈ چیئرمین ا نجم سیٹھی "پاکستان" کے نام پر سمجھوتہ کرنیوالوں سے سمجھوتہ تو نہیں کر لیں گے؟؟؟؟