مجھے نہ تو تاریخ یاد ہے نہ ہی دن اور نہ ہی سال حالانکہ یہ بات اتنی پرانی بھی نہیں۔ نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں مقبول اکیڈمی کے روح رواں ملک مقبول احمد کا انٹرویو چھپا اس پر طائرانہ نظر ڈالتے جب میں نے موضع ورک کا نام دیکھا تو انٹرویو کو غور سے پڑھنا شروع کر دیا۔ سیالکوٹ کے سرحدی گائوں دیوووال کا ایک نوجوان سکول ٹیچر اپنی کہانی اس طرح بیان کر رہا تھا کہ وہ روزانہ سائیکل پر مکوئے پرائمری سکول جاتا واپسی پر موضع ورک سے گزرتا تو وہاں کے ذیلدار چودھری دسوندھی خاں سے کبھی کبھار علیک سیک کر لیتا۔ ایک روز چودھری صاحب نے تفصیل سے حال پوچھ لیا تو نوجوان سکول ماسٹر نے کہا کہ میں نے انہیں اپنے دل کی یہ خواہش بتا دی کہ میں کوئی رسالہ نکالنا چاہتا ہوں ۔ چودھری صاحب نے اپنی بیٹھک کا دروازہ کھولا تو مری قسمت کا دروازہ کھل گیا۔ میں نے وہیں بیٹھ کر پڑھانے کی بجائے لکھنے اور کوئی رسالہ چھاپنے کا فیصلہ کر لیا۔ چودھری صاحب نے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا ۔ میں ایک معروف ناشر کی زندگی کی کہانی میں احسان مندی کے اس انداز سے بڑا متاثر ہوا کیونکہ چودھری دسوندھی خاں کے خاندان سے ہمارے بہت ہی قریبی تعلقات ہیں فوراً بھائی جان خضر ورک کو فون کر کے ملک مقبول احمد کی اس احسان مندی کی بات کی اور پوچھا کہ کیا ان کا ملک صاحب سے رابطہ ہے وہ کہنے لگے میرا زیادہ رابطہ نہیں البتہ بڑے بھائی ظفر اقبال ورک انہیںملتے رہتے تھے۔ وہ ظفر بھائی جان کے انتقال پر تعزیت کیلئے بھی آئے تھے۔ اب یہ خیال کہ انکے ذریعے ملک صاحب سے ملا جائے تو زیادہ قابل عمل نہ تھا۔ نوائے وقت میں انٹرویو کرنیوالے خالد یزدانی کا فون حاصل کر کے انکے انٹرویو کی تعریف کی اور ملک مقبول احمد سے رابطے کیلئے ان کا فون نمبر لے لیا۔ فون پر بات کرنے میں میری روایتی سستی آڑے آئی اور نمبر گُم ہو گیا۔ خالد یزدانی کو دوبارہ تکلیف دی اور نمبر حاصل کرتے ہی فون ملا دیا۔ میں نے اپنا تعارف کرانے کی بجائے انکے انٹرویو کو پسند کرنے کی وجہ بتائی تو انہوں نے میرا تعارف پوچھا۔ میں نے جب کہا کہ میرا تعلق بھی اس علاقہ سے ہے۔ آپ کو ملنے کا کئی بار خیال آیا مگر یہ سوچ کر کہ اتنا بڑا ناشر کہیں اس ملاقات کا یہ مطلب نہ لے کہ میں بھی کوئی کتاب چھپوانا چاہتا ہوں اور میں نے فون پر یہ بھی بتا دیا کہ میری چار کتابیں مکتبہ کارواں کے چودھری عبدالحمید مرحوم و مغفور نے چھاپی ہیں۔ ایک جنگ پبلی کیش نے اور ایک آتش فشاں پبلی کیشن نے یہ تینوں اشاعتی ادارے بہت معتبر تھے۔ ملک صاحب نے بڑی اپنائیت کا مظاہرہ کیا اور روایتی وضع داری میں کہہ دیا کہ میں کسی وقت آپ کو سلام کرنے آئونگا اس وضع داری کا بھرم رکھنے کیلئے انہوں نے میرے گھرکا ایڈریس لے لیا مگر ایک ٹیلی فون کال پر ہونے والی تعارفی گفتگو کے بعد کوئی بھی شخص یہ نہیں سمجھے گا کہ واقعی اتنا بڑا اور معروف ناشر اپنی رسمی سی بات کو پورا کرے گا۔
ایک روز فون اٹھاتے ہی یہ آواز کانوں میں پڑی ’’عالیجاہ میں ملک مقبول احمد بول رہا ہوں میں نے ابھی خوشی اور شکریے کے ملے جلے جذبات کا اظہار بھی نہیں کیا تھا کہ دوسرا فقرہ تھا عالیجاہ آپ کے دولت خانے کے باہر کھڑا ہوں۔‘‘ میں بھاگ کر گیا گلے ملے کتابوں کے دو بھاری بنڈل ، کیک اور ایک اور لفافے تھے مگر ان میں سے کسی کو پکڑانے کو تیار نہ ہوئے لا کر ڈرائنگ روم میں خود رکھا ا ور سر تاپا میرا جائزہ لیتے ہوئے بولے قمری حساب سے نوے سال سے اوپر ہوں بلکہ بانوے کہہ لو۔ انگریزی کے مہینوں سالوں میں ایک آدھ سال بعد نوے کا ہو جائونگا اور ساتھ ہی اس عمر میں اپنی صحت کے قابلِ رشک ہونے کا پیغام دے دیا۔ اب ملک صاحب سے مہینے دو مہینے بعد ملاقات ہو جاتی ۔ ایک دن اپنی شائع کردہ کتابوں کی فہرست جو بذات خود ایک کتابچہ تھا لا کر مجھے تھما دی۔ مختلف موضوعات پر شائع ہونے والی کتابوں کی خوبصورت کلاسیفیکیشن قومی امور پر کتب میں فکر و تدبر اور سامنے میرا نام۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اب میں اسی کو پڑھ رہا ہوں تو ہنس کر کہنے لگے آپ پوچھے بغیر میں نے آپ سے پچھلے ڈیڑھ سالکے کالم اکٹھے کر کے شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پھر ایک روز تھینک یو پاکستان چھاپ کر لے آئے۔ میں جب بھی ان کے گھر گیا خوبصورت کتابیں انکے ڈرائنگ روم میں اس طرح پڑی ہوئیں کہ یا تو نیو انٹری ہے یا پڑھی اور پڑھنے والے الگ الگ رکھی ہیں۔ ایک کتاب جو باقی کتابوں سے مختلف اپنی جاذبیت اور خوبصورتی کی وجہ سے فوراً توجہ حاصل کر رہی تھی اسے پکڑا ہی تھا تو کہنے لگے یہ میرا ایک دوست ہے علامہ اسے خوبصورت کتابیں چھاپنے کا جنون ہے مہنگا کاغذ، مہنگی چھپائی یہ اس کا شوق ہے۔ پورا نام علامہ عبدالستار عاصم ہے۔ آپکوجانتا ہے آپکی کوئی کتاب یا کئی کتابیں اس سے چھپوائیں گے۔ دراصل آپ سے میرا تعلق اس وقت بنا ہے جب میں نے یہ کاروبار لپیٹ دیا ہے بچوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کسی دوست کی کتاب چھاپنے کی فرمائش آئے تو میں فنی اور پیشہ وارانہ رہنمائی کر دیتا ہوں۔ اردو بازار میں دکان پر البتہ روز جاتا ہوں آپکی کتاب تو محبت میں چھاپی ہے۔ پھر انہوں نے علامہ عبدالستار عاصم سے میری کتاب ’’آمریت جمہوریت اور بے بس عوام بہت ہی خوبصورت انداز میں شائع کرائی اور دو کتابوں‘‘ میں اور میرے اماں جی‘‘ اور ’’عجمی کا مطالعہ قرآن‘‘ کے زیرِ اشاعت ہونے کا اشتہار بھی دے دیا۔ کتاب کے سرورق پر اسی طرح محنت کی جیسے خود چھاپ رہے ہیں۔ علامہ عبدالستار عاصم کے ساتھ عمرہ پر چلے گئے۔ واپس آ کر رابطہ نہ کیا ایک دن ٹیلی فون پر عمرہ کی مبارک دینے کا موقع مل گیا تو دوسرے دن ان کا ڈرائیور انکے پوتے کی شادی کا کارڈ دیگا۔ میں شادی میں پہنچا تو دور سے ایک بندے کو بھیج کر مجھے پاس بلا لیا، آج اٹھ کر ملنے کا تکلف بھی نہ کیا بیٹھے بیٹھے گلے لگایا کرسی خالی کرائی اس پر بیٹھنے کو کہا مسکراہٹ اور خوشی کے اس موقع پر اپنی تکلیف کو وہ زیادہ دیر تک نہ چھپا سکے۔ عمرہ سے آنے کے بعد اپنی بیماری اپریشن اور اسکے بعد ہونے والی تکلیف سے آگاہ کیا۔ میں نے اپنے بڑے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد سراج کا بتایا کہ وہ سرجری کا پروفیسر ہے۔ اللہ نے اسکے ہاتھ میں شفا دی ہے اسی ہسپتال میں کنسلٹینٹ ہے جہاں سے آپ نے اپریشن کرایا اس سے مشورہ کیا جا سکتا ہے اور موجودہ تکلیف میں کسی ماہر ترین ڈاکٹر کو دکھا لیں گے۔ اپنے بیٹے ڈاکٹر ارشد سے ملایا اور اس پیشکش پر دونوں باپ بیٹے نے مجھے ضرورت پڑنے پر آگاہ کرنے کا یقین دلایا۔ مگر پھر کوئی رابطہ نہ ہوا ایک دن اچانک علامہ صاحب آئے کہنے لگے ملک صاحب کو دیکھ کر آ رہا ہوں اور پھر بلبلا کر رونے لگے۔ میں سمجھ گیا طبیعت زیادہ خراب ہے۔ ملنے کی خواہش کی تو علامہ کہنے لگے اہل خانہ نے انکی تکلیف کے پیش نظر ملاقات پر تقریباً پابندی لگائی ہے پھر بھی کوشش کرونگا اور پھر دو تین دن بعد اس بے پناہ محبت کرنیوالے اور ’’سفر جاری ہے‘‘ کے مصنف کا سفر ختم ہونے یا رمضان مبارک کے بابرکت مہینے میں دوسرے سفر پر روانہ ہونے کی اطلاع بھی علامہ عبدالستار عاصم نے ہی دی۔ صبح انکے گھر پہنچ گیا۔ ڈاکٹر ارشد سے ملک صاحب کی باتیں کیں جس مسجد میں جنازہ پڑھایا جانا تھا اسکو دیکھا اور اپنی پہلے سے طے شدہ ایک ایسی خدمت خلق سے متعلق کاوش جس میں وقت کی لگام کسی ایسے مہربان کے ہاتھ میں تھی جو کسی کی زندگی بچانے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا مجھے ملک صاحب کے جنازے میں شرکت سے محروم کردیا۔ اس سلسلہ میں میری ساری دوڑ دھوپ فول پروف انتظام ناکام ہو گئے۔ ملک صاحب کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعا جنازے میں شرکت نہ کرنے کا نعم البدل ثابت نہیں ہو رہی۔