لاہور (نیٹ نیوز‘ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر ایوی ایشن غلام سرور خان کا کہنا ہے کہ طیارہ حادثے کے بعد ان سے کسی نے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ایسی پیشکش کی گئی ہے۔ لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’جہاز میں کل 99 افراد تھے جن میں جہاز کے عملے کے 8 افراد بھی شامل تھے۔ جہاز کے عملے کے تمام افراد کا تعلق لاہور سے تھا اور وزیر اعظم کی ہدایت پر وہ ان تمام افراد کے اہلخانہ سے ملاقات کرنے کے لیے لاہور آئے ہیں'۔ انہوں نے بتایا کہ حادثے کی ابتدائی انکوائری رپورٹ 22 جون کو عوام کے سامنے پیش کردیں گے۔ 94میتوں کی شناخت ہو چکی ہے۔ آج جمعہسے قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغاز ہورہا ہے جس کے ایجنڈے میں طیارہ حادثہ بھی شامل ہے اور ہماری کوشش ہے کہ جلد از جلد منصفانہ انکوائری مکمل کرلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے محکمے کو ہدایات دی ہیں کہ ماضی قریب میں ہونے والے تمام حادثات کی مکمل انکوائری رپورٹ بھی پیش کریں گے‘۔ انہوں نے بتایا کہ 10، 10 لاکھ روپے کے معاوضے تمام لواحقینکو پہنچا دیے گئے صرف 3 یا 4 کے رہ گئے ہیں اور اس کام کو بھی جلد مکمل کرلیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عملے کے افراد کے ادارے سے وابسطہ واجبات کو بھی متاثرہ خاندانوں تک فوری پہنچانے کی ہدایت کردی ہے۔ غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ طیارہ حادثے میں گھروں میں کام کرنے والی 3 بچیاں بھی جھلس گئی تھیں جن میں سے ایک جاں بحق ہوگئی تھی جسے ہم نے 10 لاکھ کا معاوضہ ادا کیا جبکہ زخمیوں کو 5، 5 لاکھ روپے ادا کیے ہیں۔ حکومت نے لوگوں کے املاک کے نقصان پر بھی معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے کسی نے استعفیٰ نہیں مانگا، نہ ہی میں نے ایسی کوئی پیشکش کی تھی اور نہ ہی ایسا کوئی مطالبہ تھا‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طیارہ حادثے کی کسی پر ابھی تک کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے پائلٹ کے حوالے سے کچھ افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، پائلٹ کا 25 سالہ کیریئر ریکارڈ ہے کہ اس سے کبھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی، مگر جب تک انکوائری رپورٹ سامنے نہیں آتی کوئی رائے نہیں دینی چاہیے۔
طیارہ حادثہ کی ابھی کسی پر ذمہ داری ڈالی نہ مجھ سے استعفیٰ طلب کیا گیا: غلام سرور
Jun 05, 2020