بھاشا ڈیم اور واٹر سکیورٹی

Jun 05, 2020

محمد سلیمان خان

بھاشا ڈیم اور سندھ بیراج کی تعمیر کیلئے حتمی منظوری یقینا پاکستان میں تبدیلی لائے گی جس سے واٹر سیکیورٹی میں بہتری آئے گی۔ پاکستان میں آبی وسائل کی کوئی کمی نہیں لیکن افسوس کہ سابق حکمرانوں نے اس اہم مسئلہ کو خصوصی توجہ کے قابل نہ سمجھا۔ کالاباغ ڈیم بھی نہ بنا لیکن حکومت نے دوسرے ڈیموں کی تعمیر کی طرف بھی کوئی توجہ نہ دی۔
پرویز مشرف کے دور میں بھاشا ڈیم کو منظور کرتے ہوئے اس کا افتتاح بھی کیا گیا لیکن کسی بھی حکومت کی دلچسپی نظر نہیں آئی۔ 15 سالوں میں بھاشا ڈیم کے لئے زمین بھی مشکل سے نہ خریدی جا سکی۔ بلاشبہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس اعتبار سے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کیلئے عدالت عظمیٰ کی سطح پر فیصلہ دے کر حکومت کو گائیڈ لائن دی۔ ان کے فیصلہ میں کالاباغ ڈیم کو رد بھی نہیں کیا گیا بلکہ اس سلسلہ میں فوری اتفاقِ رائے پیدا کرنے میںمشکل کے پیشِ نظر فوری طور پر تیزی سے مذکورہ دونوں ڈیموں پر کام کرنے کا حکم جاری کیا۔ ان کے فیصلے کے مندرجات پر غور کیا جائے تو ہمیں یہ گائیڈ لائن بھی ملتی ہے کہ زرعی معیشت کی بنیاد رکھنے والے پاکستان کیلئے آبی وسائل کی فراہمی اہم ترین جزو ہے۔ آبی وسائل کو نظرانداز کرکے IPP'S کے تھرمل بجلی گھروں نے انتہائی مہنگی بجلی مہیا کی جس سے نہ صرف عوام کے لئے مشکلات پیش آئیں بلکہ ویلیو ایڈڈ اشیاء کی لاگت میں ناقابل برداشت اضافہ ہونے سے اس کے منفی اثرات ہماری برآمدات پر بھی پڑے۔
مہمند ڈیم پر پچھلے سال سے کام شروع ہے جبکہ اب بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے واپڈا نے ابتدائی طور پر مین ڈیم کی تعمیر کیلئے کنٹریکٹ ایوارڈ کر دیا ہے۔ ایوارڈ میں پاور چائنا 70فیصد اور ایف ڈبلیو او 30فیصدکا کنٹریکٹ ظاہر کیا گیا ہے۔ کنٹریکٹ کی مالیت 442 ارب روپے ہے جس میں ڈائیورشن سسٹم اور تانگیر ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی تعمیر بھی شامل ہوگی۔ بھاشا ڈیم کی کل لاگت کا تخمینہ 1406.5 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ بھاشا ڈیم کی کنسلٹنسی کیلئے بھی 27 ارب 18 کروڑ روپے کے کنٹریکٹ کئے جا چکے ہیں۔ بھاشا ڈیم کا لائیو سٹوریج 6.4MAF ہوگا۔ اس منصوبہ سے نیشنل گرڈ کو 18.1ارب یونٹ بھی مہیا ہوں گے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے یقینا تھرمل ہائیڈرو پیداوار کی ریشو میں بہتر تبدیلی آئے گی۔ پریس بریفنگ میں بھاشا ڈیم سے ملنے والی بجلی کا ٹیرف اور دیگر شرائط کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔اس بریفنگ سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر IPP'S کے اصولوں پر ہوگی تو اس کا ٹیرف زیادہ ہونے کی خدشات بہرحال اپنی جگہ موجود ہے بہرحال پانی کے ذخیرہ سے زرعی معیشت میں ٹھہراؤ ضرور آئے گا۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے 8 سال کی مدت کا تعین کیا گیا ہے۔
بات صرف بھاشا ڈیم کی نہیں بلکہ یہ سوچنے کی ہے کہ ذرائع آب سے متعلق ہمارے چیلنجز کیا ہیں اور کیا بھاشا ڈیم کی تعمیر سے ہم اپنے آبی وسائل سے کماحقہ استفادہ کر سکیں گے؟ پاکستان کی زرعی معیشت کیلئے ذرائع آب بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ منگلا اور تربیلا ڈیموں کے بعد آبادی میں چارگنا اضافہ ہوا لیکن سیاسی بلیک میلنگ کے ذریعے نئے ڈیموں کی تعمیر شجر ممنوعہ بنا دی گئی۔ آبادی کئی گنا بڑھنے کی وجہ سے بھی خوراک کے مسائل آئے۔ سندھ طاس معاہدہ میں ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ورلڈ بینک نے منگلا اور تربیلا ڈیم تعمیر کروائے۔ ورلڈ بینک نے 1967 کی انڈس بیسن سے متعلق سٹڈی رپورٹ میں واضح کر دیا تھا کہ مذکورہ ڈیموں سے فائدہ 1990تک ہوگا۔ اس دوران ایک نیا ڈیم بنانا ہوگا جو کالاباغ ڈیم ہوگا۔ اس کے 10 سال بعد بھاشا اور اس دوران پورے انڈس بیسن کی مکمل سٹڈی کرتے ہوئے مستقبل کے چیلنجز کے حوالے سے مکمل پلاننگ کرنا ہوگی۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس سٹڈی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 45 سالوں میں آبی وسائل کی بہتری کی طرف کوئی توجہ نہ دی جس کے نتیجہ میں آج عالمی ماہرین پاکستان کو 2025ء میں قحط کی وارننگ دے رہے ہیں۔ بلاشبہ بھاشا ڈیم ایک اچھا اور بڑا ڈیم ہے۔ اس سے پاکستان کے آبی وسائل اور اس کے ذریعے پیدا ہونے والی ہائیڈل بجلی میں بہتری آئے گی۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ریکارڈ وقت میں مذکورہ ڈیم کی تعمیر مکمل کر سکتے ہیں جبکہ سب سے اہم مسئلہ وقت اور سرمائے کی دستیابی کا بھی ہے۔ چیئرمین واپڈا نے بریفنگ میں انٹرنیشنل ڈونر سے بھی فنڈز ملنے کی امید ظاہر کی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں کہ ورلڈ بینک اور عالمی ایجنسیاں پہلے ہی بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے بھارت سے NOC لینے کی شرط عائد کر چکی ہیں۔ ان حالات میں ہم مقررہ وقت میں کس طرح بھاشا ڈیم کی تعمیر کو ممکن بنا سکتے ہیں؟
ان حالات میں وزیراعظم اور مقتدر اداروں کو جائزہ لینا ہوگا کہ ہم کس طرح مستقبل میں قحط سے بچنے کیلئے فوری اور اہم اقدامات کر سکتے ہیں۔ ارسا کی رپورٹس کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ چار سالوں سے ہر سال برسات میں پانی ضائع ہونے کے باوجود خریف کے موسم کے آخری دن 30ستمبر کو صوبوں کو ربیع کی فصل کیلئے پانی کی دستیابی میں15سے 35 فیصد کمی کی وارننگ دی جاتی ہے۔ سردیوں میں بے موسمی بارشوں کی وجہ سے ہر سال ہمیں گندم کی پوری فصل اٹھانے کا موقع ملا ہے۔ اگر ان حالات میں ایک سال بھی سردیوں میں بارشیں نہ ہوئیں تو قوم کو آٹے کے شدید بحران کیلئے ابھی سے تیاری کر لینا چاہیے۔
ادھر افغانستان میں بھارت کے تعاون سے 12ڈیموں کی تعمیر پر کا م شروع ہے۔ ان ڈیموں کے مکمل ہونے سے دریائے کابل میں آنے والے پانی میں کمی ہوگی۔ اس طرح افغانستان کے ساتھ کسی ٹریٹی کے نہ ہونے سے پاکستان کو کالاباغ ڈیم کی عدم موجودگی میں ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ واحد یہ ڈیم ہے جودریائے کابل اور سیلابی پانی کے پانی کو استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان خدشات کو مدنظر رکھا جائے تو کالاباغ ڈیم کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ کالاباغ ڈیم میں تمام بنیادی کام 33سال پہلے 1987 میں مکمل ہو چکے تھے۔ اگر آج بھی اس پر کام شروع کیا جائے تو صرف چند سالوں کی ریکارڈ مدت میں نہ صرف ڈیم تعمیر ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے جناب وزیراعظم کنسٹرکشن انڈسٹری کی طرح انوسٹرز کو ایمنسٹی سکیم کا اجراء کرکے واپڈا بانڈز جاری کریں تو مطلوبہ مالیت کے فنڈز باسانی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
ہماری مقامی صنعتیں ٹیوٹا اور کاروں کی دیگر کمپنیز کے علاوہ اٹامک سینٹرز کو بھی عالمی معیار کا سامان فراہم کر سکتی ہیں۔ ان پراجیکٹس میں بھی لوکل صنعت کو SOP'S بنا کر شامل کرنے سے ہم اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اپنی کرنسی میں ان اہم ترین پراجیکٹس مکمل کر سکتے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشن کے سیکرٹری جنرل اور یو این او کے ذیلی ادارہ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) وارننگ دے چکے ہیں کہ دنیا کے بدلتے موجودہ حالات میں خوراک کے چیلنجز دوگنا ہو جائیں گے۔ بھوک اور قحط سے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر پاکستان بھاشا، مہمند اور کالاباغ ڈیم سمیت آبی منصوبوں کو کم ترین وقت میں مکمل کر لے تو ہم نہ صرف اپنی ضروریات پوری کر سکتے ہیں بلکہ دنیا سے بھوک و افلاس کو مٹانے میں اہم کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں