نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی

خطہء پوٹھوہار کے خصائص اور امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ نگر نگر صوفیائے عظام کے آستانے، مزارات، نشست گاہیں اور بیٹھکیں ہیں، جہاں عاشقین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ سائلین روحانی تسکین کا مسلسل سامان کرتے ہیں۔دراصل جو مجاز حقیقت کی راہ رسان کردے، وہ مجاز بھی عین حقیقت ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ والے بھی حقیقت ہوتے ہیں جو متلاشیانِ حق کو طالبِ عقبیٰ نہیں بلکہ طالبِ مولا ہونے کا درس دیتے ہیں، نیز اللہ اور اس کے مقربین کی محافل تک رسائی کو رسان کرتے ہیں۔ یہ مجاز کی صورتیں بھی عین حقیقت ہیں۔ ان حقیقتوں میں سے ایک حقیقت سائیں محمد اشرف بادشاہ قاردی قلندریؒ کا آستانہ عالیہ ہے جو اسلام آباد کے مضافات، وادی ء تمیر میں واقع ہے۔ یہ وادی اس فقیر کی نسبت کے تحت اب کہ تمیر شریف کہلاتی ہے۔ 1899ء تا 1939ء کے مختصر عرصے میں، خاندانِ بنو ہاشم، آلِ علی ؓ میں سے سائیں محمد اشرف قادری قلندریؒ کے نام کا چراغ جلا جو اپنی تابانی سے متعلقین کے قلوب کو منور کر گیا۔ مولا علیؓ اپنی آل کو اسی طرح نوازتے ہیں، اور روحانی فیضان عطا ہوتا چلا جاتا ہے بشرطیکہ آپؓ کے ذکر پہ پیشانی شکن آلود نہ ہو اور دل علی علی کی صدا سے جل تھل رہے۔ سائیں محمد اشرف قادریؒ کے راہِ عدم سدھارنے کے بعد، آپؒ کے روحانی جانشین پیر
عزیز احمدسرکارؒ اور بابا جی مختار احمدؒ نے بالترتیب بیعت و ارشاد کی ذمہ داری سنبھالی۔ اب کہ پیر نسیم احمد ہاشمی قادریؒ سجادہ نشین ہیں جو آبا کی امانت کو بندگانِ خدا تک بہ احسن پہنچا رہے ہیں۔حضرت سائیں محمد اشرف بادشاہ قاردی قلندریؒ نے کامرہ شریف کے حضرت ٹکا سلطان قاردیؒ کے ہاتھ پہ بیعت کی تو ظاہر و باطن بدل کر رہ گئے۔ حضرت ٹکا بادشاہ قادریؒ پنڈوڑی شریف کے حضرت میرن جتی سرکارؒ سے فیض یاب ہوئے تھے جبکہ حضرت میرن جتیؒ حضرت امام بری سرکارؒ کے فیض یافتہ تھے۔ حضرت میرن جتیؒ کو بری امام سرکارؒ نے روحانی طور پہ بیعت سے سرفراز فرمایا تھا۔ متذکرہ سبھی حضرات کرام کا روحانی شجرہ امام بری سرکارؒ سے ہی جا کر ملتا ہے جبکہ حضرت پیرے شاہ غازیؒ کھڑی شریف، حضرت شاہ چن چراغ راولپنڈی،سخی شاہ جہان، ٹاہلیاں شاہاں راولپنڈی اور حضرت امام بری ؒ کی نسبت حجرہ شاہ مقیمؒ کے سلسلہء عالیہ کے توسل سے غوث پاک شیخ عبدلقادر جیلانی محبوب سبحانیؒ سے جا ملتی ہے۔ حضرت ٹکا بادشاہؒ کو امام بری سرکارؒ سے ہی فیض میسر ہوا اور روحانی بیعت عطا ہوئی۔ خطہ ء پوٹھوہار میں جا بجابری سرکارؒ سے فیض یاب آستانے پوری آب و تاب کے ساتھ طالبانِ حق کو سرخرو کر رہے ہیں۔ ان آستانوں پہ بری بری کی صدا ہر دم جاری و ساری ہے۔ یہ سبھی بریؒ کے طالب تھے اور حق یہ ہے کہ تاابدالآباد بریؒ کے طالب نمودار ہوتے رہیں گے۔حضرت سائیں محمد اشرف قادری قلندریؒ،سائیں ٹکا سلطان قادریؒ کے خلیفہ ء اوّل تھے، جو اپنے مرشد کے گزر جانے کے بعد بھی کامرہ شریف میں آستانے کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ اس سے قبل سائیں اشرف بادشاہؒ نے زندگی کے نشیب وفراز دیکھ رکھے تھے۔ آپؒ شعبہ تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ طبیعت میں فقر اور درویشی اس طور سے بھی تھی کہ آپؒ کا خانوادہ امام بریؒ کی محبت و مودّت میں مستغرق تھا۔ اجداد کا روحانی لگائو امام بریؒ کی جانب ہی تھا، جس کے باوصف قادری قلندری فیض نصیب ہوا۔ سائیں اشرف بادشاہؒ اپنے مرشدکے حلقہ ء ارادت میں شامل ہوئے تو دل میں سے دنیا کی رہی سہی محبت بھی اٹھ گئی، ظاہر و باطن میں تغیر ایسا آیا کہ عرصہ ملامت بھی خوب بِتایا۔ اسی دوران حضرت سائیں صاحب کا سلطان العارفین حضرت باہو سرکارؒ سے روحانی رابطہ بھی ہوا۔ نفس کشی کی۔ تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کی منازل بہ خوبی طے کیں۔ ملامت و آزمائش کے اس امتحان میں ظفریاب ٹھہرے تو زندگی نے ایک بار پھر کروٹ لی اور آپؒ متشرع ہو گئے۔ فقر آنکھوں سے ٹپ ٹپ چھلکنے لگا اور دل موم ہو کر رہ گیا۔ گریہ نیم شبی نے آ لیا۔ محمد و آلِ محمدؐ سے عشق مقصدِ حیات ٹھہرا۔ طریقت کی منازل طے کیں تو وادی ء تمیر، تمیر شریف میں بدل کر رہ گئی۔ صوفی باصفا کی برکتیں چھم چھم برسنا شروع ہوئیں تو مریدین و محبین کے دِلوں پر سے زنگ اترتا چلا گیا۔ سائیں اشرف بادشاہ قادریؒ کا اعجاز ہوا کہ ناتراشیدہ لوگوں کو تراش کراللہ کے حضور پیش کر دیا۔ گویا طالبِ عقبیٰ طالبِ مولا ہوتے چلے گئے۔آستانہ عالیہ تمیر شریف، امام بریؒ کا جاری کردہ ایسا زندہ رُود
ہے جس سے محبین و مکینِ علاقہ پیہم مستفیض ہو رہے ہیں۔ اس خانوادے کے ساتھ اہل علاقہ کا قلبی و روحانی تعلق برسوں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنی ہاشم کے اس خانوادے کو ’استاد گھرانے‘کے ناتے تقدیم حاصل ہے۔ عوام و خواص اس خانوادے سے عقیدت و مودّت رکھتے ہیں۔ خطہ پوٹھوہار میںیہ خانوادہ کہیں بھی آباد ہوا تو ’استاد گھرانے‘ کی حیثیت سے ہی ممتاز ٹھہرا۔ اس امتیاز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ خانوادہ بہرصورت ’’خانقاہ‘‘ سے وابستہ رہا۔ نسباََ، نسلاََ، مسلکاََ اور عقائد کی رُو سے مولائی و بوترابی ہونا مالکِ علی الاطلاق کا خصوصی فضل ہی تو ہے۔نسلِ نَو کو بھی اس نظریے کے ساتھ جُڑے رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ بلاشبہ یہی زادِ راہ ہے۔حضرت سائیں محمد اشرف بادشاہ قادریؒکے متعدد قلمی نسخے موجود ہیں جو بوجوہ اولاد میں بکھرے پڑے ہیں۔ آپؒ کے شعر و نثر پر مبنی تمام ترقلمی نسخہ ہائے جات کی تدوین کی جا سکتی ہے اور اس علمی خزانے کو کتابی صورت میں منصہ شہود پہ لایا جا سکتا ہے تاکہ تشنگانِ علم و معرفت آپؒ کے کلام سے مستفیض ہو سکیں نیز حضرت صاحب کی تمام تر خدمات منظر عام پہ لائی جا سکیں۔ فقرا کی اولاد کے یہی کام کر گزرنے کے ہوتے ہیں، بصورتِ دیگر دنیوی جاہ و حشمت اور مراتب کا حامل ہونا کوئی کمال نہیں۔ اس باب میں خاکسار ان کے عیال سے خواست گار ہے کہ حضرت صاحبؒکے قلمی نسخہ ہائے جات کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ مذکورہ تحقیق و تدوین کا منصوبہ رُو بہ عمل ہو سکے۔ بلاشبہ یہ صدقہ جاریہ ہے۔ دعا ہے کہ خاندان بنو ہاشم، آلِ علی میں سے ایسے چراغ تاقیامت جلتے رہیں۔

ای پیپر دی نیشن