حیدر قریشی. جرمنی
موت سے چھیڑ چھاڑ اور
جرمنی میں شاعروں کی عید
کلکتہ کے معروف صحافی اور ادیب عنبر شمیم جو وہاں کے تین روزناموں میں نیوز ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔معیاری ادبی رسالہ "دستک" نکالتے رہے۔پندرہ روزہ "انسان" کے ایڈیٹررہے۔اب وہی عنبر شمیم کسی اہم ادبی منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔اسی حوالے سے انہوں نے مجھ سے کچھ معلومات اور کچھ میٹر طلب کیا تھا۔انہیں ان کا مطلوبہ میٹر بھیجنے کے بعد میں نے 20 مئی 2020 کوانہیں یہ میسیج بھیجا۔
"آپ نے جو میٹر منگایا ہے عام طورپر شاعروں،ادیبوں کی وفات کے بعد جاری کیا جاتا ہے۔اسے بھیجتے وقت یہ بات ذہن میں تھی سوایک پرانے گیت کا یہ مصرع یاد آتا رہا۔ہم آج اپنی موت کا سامان لے چلے"
عنبر شمیم کا جواب آنے کے بعد انہیں پھر یہ میسیج بھیجا۔۔
"عبدالرب استاد صاحب کو جب پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی تو انہوں نے مجھے یہ خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ عام طور پرکسی ادیب کے فوت ہو جانے کے بعد اس پر پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے۔آپ کا اعزاز ہے کہ آپ کی زندگی میں ہی آپ پر پی ایچ ڈی ہو گئی ہے۔اس پر میں نے ہنستے ہوئے کہا گویا آپ نے تو ہمیں جیتے جی مار دیا۔بہر حال یہ سب خوشی کی باتیں ہیں۔اللہ پاک آپ جیسے سارے احباب کو خوش رکھے، سلامت رکھے۔آمین۔"
موت سے چھیڑ چھاڑ جیسی یہ باتیں میری شاعری اور نثرمیں شروع سے ہی آ رہی ہے۔دو اشعار پر اکتفا کرتا ہوں۔
کیا خبر کب سفر پہ چل نکلیں
اسپِ جاں پر ہمیشہ زین رہے
اور تھے حیدر جو اس کی چاہ میں مرتے رہے
ہم نے ا±لٹے ہاتھ سے جھٹکی ہوئی ہے زندگی
حالیہ عید کی صورتِ حال پر مجھے اپنی نظم "فاصلوں میں ملاپ" کا عنوان یاد آیا۔یہ عنوان بر محل ہو گیا ہے۔دکھ، احتیاط اور خوشی میں گندھی ہوئی اس عید کے بارے م?ں جرمنی کے چند ادیبوں سے استفسار کیا کہ ان کی یہ عید کیسی گزری؟
راجہ محمد یوسف خان نے بتایا کہ یہ عید پہلی عیدوں سے مختلف گزری۔ کرونا وائرس کی وجہ سے احتیاطی تدابیر کے احکامات ابھی نافذ العمل ییں۔ عید کا آدھا دن فیملی کے ساتھ گزرا باقی آدھا دن فرینکفرٹ میں عزواقارب کے ساتھ۔ سب روایتی گرمجوشی سے ملے مگر بعض پر لاک ڈاون کی وجہ سے دو ماہ سے زیادہ گھروں میں بند رہنے کی صعوبت کے اثرات بھی نظر آئے۔ مجموعی طور پر عید اچھی گزری۔
طاہر عدیم صاحب نے اپنی عید کا حال یوں بیان کیا۔موجودہ حالات کے پیشِ نظر میں نے اپنی فیملی کے ساتھ عید کی نماز گھر میں ہی ادا کی۔ یہ( عید کا خطبہ اور نماز ) بھی زندگی کا نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔۔۔ بعد ازاں تمام وقت سادگی سے کھانا تیار کرنے اور مخلوقِ الہٰی کی خیر و عافیت کیلیے دعاو¿ں میں گذرا۔۔۔ بچوں نے ہر سال کی طرح امسال بھی اس نیت اور عزم سے خوب خوب عیدی اکٹھی کی کہ جمع شدہ رقم سے پاکستان میں بسنے والے مستحق افراد کی مدد کی جائے گی۔یہ رقم کل پاکستان بھجوا دی جائے گی۔فالحمد للّٰہ علیٰ ذلک
فرزانہ ناھیدکا کہنا ہے کہ عورت چاھے فن ادب سے منسلک ھو کچن سے الگ نہیں ھوسکتی۔عید بھی کچن میں کھانا پکاتے اور مہمانوں کی خدمت کرتے گزر گئی.یہ خوبصورت تہوار اپنوں کے ساتھ گزارنے کا ہی لطف ہے۔
فہمیدہ مسرت نے اپنی عید کے بارے میں یوں بتایا۔امسال وبائی آفت کرونا کے تحت زندگی پہلے ہی خوف وہراس کا شکار تھی لیکن عید الفطر سے عین دو دن قبل وطنِ عزیز کی قومی ایئر لائن کا حادثہ مزید سوگوار کرگیا عید نہایت اداس گزری ہے
اسحاق ساجد نے بتایا کہ صبح عید کی نماز پڑھی۔۔ پھر پھولوں کی ایک دکان سے پھول خریدے ایک اولڈ ہوم کے بزرگوں کی قیام گاہ پہ ان کو پھول پیش کیے۔اس کے لیے متعلقہ آفس سےپہلے سے اجازت لی ہوئی تھی۔
طاہر مجید نے تین اشعار کی صورت میں عید منانے کا حال لکھ بھیجا۔
گھر ہی مسجد بنا لیا ہم نے
اپنے رب کو منا لیا ہم نے
گھر کے افراد سب رہے گھر میں
پیار پھر سب کا پا لیا ہم نے
عید ایسی کبھی نہیں دیکھی
فون پر مل ملا لیا ہم نے