مکرمی! یہ کوئی نیا یا غیر اہم مسئلہ نہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر ہمارے میڈیا میں بہت ہی کم بات ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مختلف اسپتالوں، شفا خانوں اور کلینکس میں بیٹھے ڈاکٹر حضرات جو ادویہ نسخے کے طور پر لکھ کر دیتے ہیں وہ بہت مہنگی ہوتی ہیں حالانکہ اسی فارمولے کے تحت سستی ادویہ بھی مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہیں لیکن وہ اصرار کرتے ہیں وہی دوا خریدی جائے جو انہوں نے لکھ کر دی ہے۔ عام حالات میں تو شاید مریض ایک ہی فارمولے کی مہنگی کی بجائے سستی دوا لے سکتا ہے لیکن جب کوئی مریض علاج کی غرض سے اسپتال میں پڑا ہو تب ایسا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ڈاکٹر اس مریض یا اس کے لواحقین کو اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتے کہ وہ ان کی لکھی ہوئی دوا سے ہٹ کر کوئی اور دوا خریدیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ڈاکٹروں کے مخصوص کمپنیوں کی دوائیں تجویز کرنے کے پیچھے ان کی ذاتی اغراض ہوتی ہیں جنہیں وہ کمپنیاں پورا کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں، فارما کمپنیاں ڈاکٹروں کو مختلف طریقوں سے کئی طرح کی سہولیات دے کر انہیں اپنی دوائیں تجویز کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ حکومت کے متعلقہ ادارے اس پوری صورتحال سے واقف تو ہیں لیکن اس کے حوالے سے کیا کچھ بھی نہیں جاتا۔ ڈاکٹروں کو سادہ زبان میں مسیحا کہا جاتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ خود بھی اس بات کا احساس کریں اور مشکلات میں گھرے ہوئے لوگوں کی پریشانیوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی بجائے ان کی پریشانیوں میں کمی کا باعث بنیں۔ (حدیقہ، لاہور)