صحت سے منسلک بگڑے مسائل 

بانی ہومیوپیتھی ڈاکٹر فیڈرک سیموئیل ہانمن اپنے وقت کے قابل ترین، مصروف ترین اور اعلیٰ ترین میڈیکل ڈگری ہولڈر ڈاکٹر تھے۔ مصروفیت اور قابلیت کا یہ معیار تھا کہ مریضوں کو چیک اپ کیلئے چھ چھ ماہ تک وقت نہیں ملتا تھا۔ ہانمن نے محسوس کیا کہ مروجہ طریقہ علاج میں فائدے کم اور نقصان زیادہ ہیں۔ بیماریوں کو دبانے اور نسلوں کو طبی طور پر غلام بنانے کا رجحان غالب ہے اور اس کے اذیت ناک پہلو نمایاں ہیں تو ہانمن نے علم بغاوت بلند کیا اوراُس طریقہ علاج کو خیرباد کہہ دیا۔ علمی قابلیت کے جوہر تو پنہاں تھے اوربہت سی زبانوں پر عبوربھی حاصل تھا، گزر بسر کیلئے کتابوں کے تراجم کرنے شروع کر دیئے۔ اس دوران منکشف ہوا اور کڑوی کونین سے میٹھا علاج (ہومیو پیتھی) دریافت کر لیا کہ جو چیز بیماری پیدا کرتی ہے اس کو ڈلیوٹ کر کے دوائی کے طور پر دی جائے تو شفا ہو گی۔ جب علاج بالمثل (ہومیو پیتھی) کے خوش گوار اثرات آنے شروع ہو گئے تو ہومیو پیتھی کی سچائی اور حقیقت سامنے آ گئی۔ ہانمن کے شاگرد اور فالوورز میں دن بدن اضافہ ہونا شروع ہو گیا تو اس وقت کے ڈرگ مافیا اور اس کے کارندوں نے ہانمن کے خلاف محاذ بنا لیے اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا جو ابھی تک جاری ہے۔ ان لوگوں کی اجارہ داری ہے، وزارت صحت کی نان ٹیکنیکل سیٹوں پر بھی یہ لوگ براجمان ہیں۔ دباؤ اور پریشر کا فارمولا استعمال کرتے ہیں۔ صحت کے نظام کی بہتری کیلئے ہومیو پیتھی کے فروغ کیلئے کوئی تجویز منظر عام پر لائی جائے تو آخر گھوم پھر کر ان کے پاس آجاتی ہے یہ جو کام نہ کرنے کے پیسے لیتے ہیں درخواست کوفریز کر دیتے ہیں۔ ان کی سرپرستی اور سربراہی ایسے ہی ہے جیسے دریا اور سمندر میں مچھلیوں کی نگہداشت کی ذمہ داری مگرمچھوں کو سونپ دی جائے۔ حکومت کب ہوش کے ناخن لے گی۔ ڈرگ مافیا اور میڈیکل مافیا سے کب آزادی حاصل کرے گی۔ صحت پر صوبائی حکومتیں کتنا بجٹ خرچ کرتی ہیں؟ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر تیار کرنے پر حکومت کتنا پیسا خرچ کرتی ہے؟ اکثر ایم بی بی ایس ڈاکٹر اپنا میڈیکل کا شعبہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ گورنمنٹ ہسپتال ان کے بکنگ سنٹر ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں پر تمام تر توجہ ہے، بنیادی مراکز صحت حتیٰ کہ بڑے ہسپتالوں میں بھی غیر تربیت یافتہ ڈسپنسر، کمپاؤنڈر درجہ چہارم کے ملازم سکیوٹی گارڈ، آپریشن کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ایکٹ 1965 کے مطابق حکومت ہومیو پیتھی کے فروغ کی پابند ہے۔ نیشنل کونسل فار ہومیو پیتھی اور ہومیو پیتھک ادارے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ایک ہومیو پیتھک میڈیکل کالج کی سرکاری گرانٹ اٹھارہ ہزار روپے سالانہ ہے اور ان سے شفافیت کا سر  ٹیفکیٹ بھی مانگا جاتا ہے۔ نیشنل کونسل فار ہومیو پیتھی خودایک کاغذ پنسل ،کرسی میز تک نہیں خرید سکتی۔ جب کہ قانون کے مطابق منسٹری آف ہیلتھ کونسل کی سفارشات کی پابند ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا وژن ہے کہ مافیا کے خلاف کاروائی کروںگا، کیا اس مافیا میں ڈرگ مافیا بھی آتا ہے۔ڈرگ مافیا، میڈیکل مافیاکو مراعات کے عوض  گاڑی، بنگلہ کی چابی ، سنگا پور، ہانگ کانگ، یورپی ممالک کی ہوٹلنگ، جہاز کے ریٹرن ٹکٹ اور اصل میڈیسن کے نام پر آلٹرنیٹو میڈیسن۔  اصل میڈیسن کی اصل قیمت اگر سو روپے ہے تو مراعات یافتہ میڈیسن کی قیمت چار پانچ سو روپے اور استعمال بھی چار گنا زیادہ ہے۔ مراعات یافتہ ادویات مسائل بھی پیدا کر رہی ہیںجو مخصوص میڈیکل سٹورزاور پرائیویٹ ہسپتالوں کے سٹورز پر دستیاب ہوتی ہیں۔ اچھی شہرت والے میڈیکل سٹور منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ ڈرگ مافیا سے بے شمار مافیا جنم لے رہے ہیں۔ عمران خان کا وژن تبھی کامیاب ہو سکتا ہے کہ جب ڈرگ مافیا کو نکیل ڈالیں۔  ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اگرادویات جنرک کے نام کے ساتھ سیل ہوں تو ایک روپیہ میں تیار ہونے والی گولی پندرہ بیس روپے میں فروخت نہیں ہو گی۔ کرپشن کا گراف کم ہو گا، مہنگائی کا زور ٹوٹے گا۔ مراعات یافتہ سٹرائیڈ، اینٹی بائیوٹک ادویات کے بے دریغ استعمال سے ہونے والی اموات میں گرانقدر کمی ہو گی۔ ملک میں سیاسی مافیا کے علاوہ اور بھی مافیا موجود ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا عوامی مجبوری اور قانونی تقاضے ہیں۔ ہومیو پیتھک علاج میں 80%آپریشن کے تجویز کردہ کیس علاج و معالجہ سے درست ہوتے ہیں لیکن ڈرگ مافیا کو یہ صورتحال گوارہ نہیں۔ ہومیو پیتھی کی سرکاری ہسپتالوں ، بنیادی مراکز صحت، یونین کونسل سطح پر آسامیاں پیدا کی جائیںشہریوں کے ساتھ ساتھ پاک فوج میں بھی ہومیو پیتھی طریق علاج دن بدن مقبول ہو رہا ہے اور اس سے بھر پور استفادہ بھی کیا جا رہا ہے۔ امید ہے حکومت ہماری پاک فوج کی ان کاوشوں سے ضرور استفادہ کرے گی اور ڈرگ مافیا کے چنگل سے آزادی حاصل کرے گی۔ 

ای پیپر دی نیشن