1973 کے آئین کو 48 سال ہو چکے ہیں-آئین کے دیباچے میں تحریر کیا گیا تھا کہ بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائیگی اور ان حقوق میں قانون اور اخلاق عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات قانون کی نظر میں برابری معاشرتی معاشی اور سیاسی انصاف اور اظہار خیال عقیدہ دین عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہوگی-جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پست طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائیگا- جس میں عدلیہ کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی- قائداعظم کے تصور کیمطابق پاکستان سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری ریاست ہوگی عدلیہ کے کئی جج یہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ آئین کا دیباچہ آئین کا سر چشمہ ہے لہٰذا کوئی بھی حکومت اس کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتی اور دیباچے میں تحریر بنیادی اصولوں کیمطابق ریاست کو چلانے کی پابند ہے قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ 1973 کا آئینی سوشل کنٹریکٹ ناکام ہو چکا ہے۔ آئین کی منشا کیمطابق ریاست کی تشکیل نہیں کی جا سکی-آئین پاکستان میں آرٹیکل 8 سے لیکر آ رٹیکل 38 تک بنیادی حقوق کے متعلق ہیں-شہریوں کے اہم ترین بنیادی حقوق کو حکمت عملی کے اصولوں کے چیپٹر میں شامل کر دیا گیا ہے- ان اہم بنیادی حقوق کے سلسلے میں آرٹیکل نمبر 30 میں درج ہے یہ فیصلہ کرنے کی ذمہ داری کہ مملکت کے کسی شعبے یا مجاز اتھارٹی کی طرف سے کام کرنیوالے کسی شخص کا کوئی فعل آئین میں درج حکمت عملی کے اصولوں کیمطابق ہے مملکت کے متعلقہ شخص یا مجاز اتھارٹی کی ہے-کسی فعل یا کسی قانون کے جواز پر اس بنا پر اعتراض نہیں کیا جائے گا کہ وہ حکمت عملی کے اصولوں کیمطابق نہیں ہے اور نہ اس بنا پر مملکت کے کسی ادارے یا کسی شخص کیخلاف کوئی قانونی کاروائی قابل سماعت ہوگی- اس آرٹیکل سے حکمت عملی کے اصولوں کے چیپٹر میں شامل اہم ترین بنیادی حقوق کے بارے میں ریاست اور حکمرانوں کی سرد مہری پر مبنی رویے کا اظہار ہوتا ہے-اس آرٹیکل سے عوام کے اہم ترین بنیادی حقوق کو آئینی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے- یہ رویہ اس بات کا متقاضی ہے کہ آئین کے اس چیپٹر پر دوبارہ نظر ثانی کی جائے اور ان بنیادی حقوق کو آئین کا لازمی اور قابل عمل حصہ قرار دیا جائے - افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں وکیلوں اور ججوں نے کبھی آئین کے ان آرٹیکلز پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جو بنیادی حقوق کے بارے میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں مگر ریاست کیلئے ان پر عمل کرنا آئینی طور پر لازم نہیں ہے- حکمت عملی کے اصولوں کے چیپٹر میں آرٹیکل نمبر 31 اسلامی معاشرے کے قیام کا تقاضہ کرتا ہے-آرٹیکل نمبر 32 بلدیاتی اداروں کے فروغ کے بارے میں ہے جس میں تحریر ہے کہ بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائیگی اور ایسے اداروں میں کسانوں مزدوروں اور عورتوں کو خصوصی نمائندگی دی جائیگی - آرٹیکل نمبر 33 میں درج ہے شہریوں کے درمیان علاقائی نسلی قبائلی فرقہ وارانہ اور صوبائی تعصبات کی حوصلہ شکنی کی جائیگی- آرٹیکل نمبر 34 میں تحریر ہے کہ قومی زندگی کے تمام شعبوں میں عورتوں کی مکمل شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کیے جائینگے- آرٹیکل نمبر 36 میں تحریر ہے کہ اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا جائیگا اور انہیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں مناسب نمائندگی دی جائیگی- آرٹیکل نمبر 37 سماجی انصاف کے فروغ اور سماجی برائیوں کے خاتمے کے بارے میں ہے-اس آرٹیکل میں تحریر ہے کہ پسماندہ طبقوں اور علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دیا جائیگا- کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کیا جائیگا اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کی جائیگی- ٹیکنیکل تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائیگی- فوری اور سستے انصاف کو کو یقینی بنایا جائیگا - حکومت کے نظم و نسق کی مرکزیت کو ختم کر کے اختیارات کو تقسیم کیا جائیگا-بچوں اور عورتوں سے ایسا کام نہیں لیا جائیگا جو انکی عمر جنس کیلئے مناسب نہ ہو- آئین کا آرٹیکل نمبر 38 عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کے بارے میں ہے- جس میں درج ہے کہ عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرکے دولت اور وسائل پیداوار اور تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچے اور اجر و اجیر زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلا لحاظ جنس ذات مذہب نسل عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کی جائیگی-تمام شہریوں کیلئے روزگار کی سہولتیں فراہم کی جائینگی - پاکستان کی ملازمت میں یا بصورت دیگر تمام ملازم تمام اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کیا جائیگا - ان تمام شہریوں کیلئے جو کمزوری بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں بلا لحاظ جنس ذات مذہب یا نسل بنیادی ضروریات زندگی مثلا خوراک لباس رہائش تعلیم اور طبی امداد مہیا کی جائیگی-پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت افراد کی آمدنی اور کمائی میں عدم مساوات کو کم کیا جائیگا اور سود کو جس قدر جلد ممکن ہو ختم کیا جائیگا-یہ آرٹیکل شہریوں کو سوشل سیکورٹی دینے کے بارے میں ہیں مگر انہیں آئینی گارنٹی سے آزاد رکھا گیا ہے-پاکستان کے آئین میں اب تک 26 ترامیم ہو چکی ہیں جن میں اٹھارویں ترمیم بڑے وسیع پیمانے پر کی گئی تھی مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں نے عوام کے اہم ترین بنیادی حقوق جن کا تعلق معاشرتی اور معاشی انصاف کی فراہمی سے ہے آج تک نظرانداز کر رکھا ہے اور ریاست کو ان اہم ترین حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے پابند نہیں کیا گیا- اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 125 اے میں پانچ سے سولہ سال تک کے بچوں کیلئے تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا جس پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا- آرٹیکل 140 اے میں بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کی تشکیل اور انکو مالی انتظامی اور سیاسی اختیارات کی منتقلی صوبوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی ہے- مقامی حکومتوں کو صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی طرح آئینی تحفظ نہیں دیا گیا- سیاستدانوں ججوں اور وکیلوں کیلئے یہ صورتحال لمحہ فکریہ ہونی چاہیے - پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور انہیں اپنے آئینی حقوق حاصل کرنے کیلئے اپنی جماعتوں کے اندر توانا آواز اٹھانی چاہیے-
سیاست دانوں ججوں وکیلوں کے نام
Jun 05, 2021