حکومت نے چارروز میں پیٹرول وڈیزل کی قیمت میں ساٹھ روپے کا اضافہ کرکے غریب عوام کی ر ہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے،حکومت پہلے ہی قوم کو یہ نوید سناچکی تھی کہ آئی ایم ایف کے قرضے کی ایک ارب ڈالر کی قسط کی وصولی کے لیے پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ناگزیر ہے ،جس آئی ایم ایف کے کہنے پر ملک پر مہنگائی کے بادل لائے گئے ہیں وہ آئی ایم ایف75 سے زائد ملکوں کو قرض مہیا کرتاہے اور ان میں سے کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جو خوشحالی کی طرف گامزن ہو،آج اسی مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں بھی روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے نرخوں میں مسلسل اضافے کی بدولت اس وقت عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ آٹا، چینی، گھی، چاول،دودھ ، دالیں، سبزیاں اور گوشت کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں بجلی، گیس ، پٹرول اور ادویات بھی بنیادی ضروریات ہیں ،مگر اس جان لیوا مہنگائی نے ان تمام چیزوں کوایک عام شہری کی زندگی سے کوسوں دورکر دیاہے ،ہمارے حکمران زبانی جمع خر چ اور جھوٹ کی سیاست سے عوام کو بہلاتے پھسلاتے رہتے ہیں، اقتدار پر بیٹھے لوگ اپنی ہر تقریر میں امریکہ اور یورپ کی مثالیں دیتے ہیں لیکن کیا ان حکمرانوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی کی ہے کہ امریکہ و یورپ میں اشیائے خوردونوش پر حکومت نے کس خوبصورتی کے ساتھ کنٹرول کر رکھا ہے اور وہاں کی حکومتوں اور سپر مارکیٹ بزنسز کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان چیزوں کی قیمت کم رہنی چاہیے کیوں کہ وہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ اشیا خوردونوش کی چیزیں ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہیں ان ممالک کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں مستحکم ہیں وہاں بنیادی ضرورت کی اشیاء حکومتی کنٹرول کی وجہ سے برس ہا برس سے بڑھنے نہیں پاتیں، اسی لیے ان ممالک کے عوام اپنے حکمرانوں سے خوش سے اس قدرنالاں نہیں ہوتے جسقدر بدعائیں پاکستانی حکمران اپنی عوام سے سمیٹتے ہیں،جس کی بڑی وجہ ان ممالک میں یہ بنیادی ضروریات بہ آسانی اور سستے داموں حاصل ہوجاتی ہیں اس کے برعکس ہمارے ہاں خوردونوش کی اشیاء کی قیمتوں پر کوئی نگرانی نہیں ہے بلکہ الٹا عوام کو زخیرہ اندوزوں اور مافیا ز کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاجاتاہے،پاکستان میں مہنگائی کی خودمختاری کا یہ عالم ہے کہ یہاں ہر دوکاندار میں اپنی مرضی کے نرخ وصول کرتاہے، فی الحال اس حکومت کی سیاسی انتقام پر مبنی پالیسیوںکو دیکھ کر تو ایسا لگتاہے کہ جیسے یہ لوگ اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کے لیے اقتدار میں آئے ہیں ایسا لگتاہے کہ حکومت کی ترجیحات میں معاشی بہتری کی بجائے اپنے مخالفین کو نت نئے طریقوں سے پابند سلاسل رکھنا مقصود لگتا ہے یہ سب جانتے ہوئے کہ آج اس ملک میں مہنگائی کا ایک سیلاب آ چکا ہے جو محنت کش عوا م کی تھوڑی بہت جوجمع پونجی بہا لے گیاہے اور اب یہ بے قابو سیلاب ان غریبوں کی زندگیوں کو نگل رہا ہے ، اس دوران حکمرانوں کی کرپشن کے نئے قصے ہر روز سننے کو ملتے رہتے ہیں،اس ملک میں آٹا اور چینی مافیا سے تو سب ہی واقف ہوچکے ہیں جو ریاستی اہلکاروں اور حکمرانوں کے ساتھ مل کر بنیادی ضروریات کی ان اہم ترین اشیاء پر بے دریغ لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں اور سینکڑوں ارب روپے کے منافع پر ہر سال کھاتے ہیں ،ہمیں فوری طور پران تمام الجھنوں ، تمام مسائل سے چھٹکارا پانے کا حل ڈھونڈنا پڑیگا ورنہ ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے وگرنہ سیاسی کھینچا تانی میں ہم کہیں کے بھی نہیں رہیں گے،اس وقت ن لیگ اور پیپلزپارٹی مل کر حکومت چلارہی ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں عوامی خدمت کی بنیاد پر اس ملک پر حکمرانی کرتی رہی ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں ان کے ادوار میں ایک بھی انسانی خدمت کا ریکارڈ دکھائی نہیں دے گا جو قابل زکر ہو اور جس کی مثال دی جاسکے ،آج کے عوام اب مسلسل حکمرانی کرنے والے حکمرانوں سے ناراض دکھائی دیتے ہیں انہیں انددرون سندھ میں پھیلی غربت اور پیاس دکھائی دیتی ہے انہیں پنجاب کی حالت زار کی وجوہات کا علم ہوچکاہے یہ ہی نہیں بلکہ آج سب سیاسی جماعتوں کو بھی یہ معلوم ہوچکا ہے کہ پاکستان میں غربت اور بیروزگاری اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بن چکے ہیں مگر اس مسئلے کو حل کرنے کا فارمولہ کسی کے پاس دکھائی نہیں دیتا،جب ہم غربت اور بے روزگاری کی بات کرتے ہیں تو ہمیں پہلے یہ جان لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں تین قسم کے طبقے ہیںایک امیر جن کے پاس ہر ہر سہولت میسر ہے دوسرا درمیانی طبقہ ہے جو کہ غربت کی لکیر سے تھوڑا اوپر ہے اور تیسرا طبقہ مکمل غربت ذدہ جو موجودہ حالات میں دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کرنہیں کھا سکتا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بے روزگاری ایک عالمی مسئلہ ہے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی بیروزگارخواتین ونوجوان موجود ہیں،مگر پاکستان بھی اس مجبوری کی زد میں کچھ زیادہ ہی ہے بعض معاشرے ایسے بھی ہیں جہاں بے روزگاری ایک سماجی برائی تصور کی جاتی ہے بے روزگاری قانون کا احترام کرنے والے اچھے شہریوں کو بھی مجرم اور ڈاکو بنادیتی ہے اس سے بد عنوانی پھیلتی ہے جھوٹ بڑھتا ہے برائیاں پھیلنا اور انسانی کردار کا تاریک پہلو جنم لیتاہے، مسلسل بے روزگار آدمی سے شرافت اور ایمانداری کی توقع کر نا کسی بھی حالت میںناممکن ہوجاتا ہے وہ اپنے بیوی بچوں کے لیئے دووقت کا کھانا اور بیمار ی میں دوائی میسر نہیں کر سکتا تو اس سے اچھے امور توقع کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے، اس وقت پاکستان میں جہاں بے روزگاری کا عفریت بے قابو ہے وہاں جو لوگ نوکری پیشہ ہیں وہ بھی آپ کو روتے ہوئے اور پریشانی سے دورچار ہی دکھائی دینگے ایسے لوگوں کی بھی قوت خرید کی ابتری سے حالت یہاں تک آپہنچی ہے کہ کچھ برس پہلے جو لوگ آٹا، چینی، گھی ، چاول دالیں ہفتے یا مہینے کے لیئے اکٹھا خریدتے تھے آج وہ روزانہ کے حساب سے خریدنے پر مجبور ہیں۔اور اس پرستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت آئے روز غریب عوام پر مہنگائی بم گراتی رہتی ہے ۔
مہنگائی اوربے روزگاری کا شکنجہ
Jun 05, 2022