نوشتہ دیوار،کبھی حقیقت کبھی افسانہ

انتظار سحر …جاوید انتظار
pytislamabad@gmail.com 
کبھی کبھی لگتا ہے آگ بجھ گئی۔آگ بجھنے کے بعد بس راکھ رہ گئی ۔باقی سب جل کر خاکستر ہو گیا مگر کبھی کبھی راکھ میں کہیں چپھی چنگاری رہ جاتی ہے ۔جو ہوا کے کسی تیز جونکے سے راکھ کو اڑا کر لے جاتی ہے اور چھپی چنگاری کو بھڑکا دیتی ہے۔بھڑکی ہوئی چنگاری اپنی شدت تپش سے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ نوشتہ  دیوارکبھی حقیقت کبھی افسانہ لگتی ہے۔وڑن دیوار کے پیچھے دیکھنے کو کہتے ہیں۔خاموشی کو کبھی بذدلی کبھی بے بسی کبھی مجبوری سمجھا جاتا ہے۔کبھی خاموشی کو حکمت اور کبھی ایک طاقت کا نام دیا جاتا ہے۔کبھی کامیابی کے مینار کی بنیاد سوچ ہوتی ہے۔ضروری نہیں سوچ سے جڑے لوگ بھی وہی سوچ رکھتے ہوں۔ریاست غلط بھی ہو تو اس سے ٹکراؤ نہیں کیا جاتا۔اسے بتدریج ٹھیک کیا جاتا ہے۔سوچ کو ابھار کر غیر منظم چھوڑ دیا جائے تو قوموں کی زندگی میں 9 مئی آجاتا ہے۔جس سے الٹی گنتی بھی شروع ہو جاتی ہے۔بڑا لیڈر کبھی حصول اقتدار کے لئے اپنی تحریک یا جماعت کے منشور پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔جو سمجھوتہ کرتا ہے وہ سمجھوتہ در سمجھوتہ کرتے کرتے اپنی اصل سے دور ہو جاتاہے۔جب پاکستان کے وجود کا فیصلہ ہو گیا ۔تو گاندھی اور وائسرائے نے قائد اعظم سے پاکستان کے وجود کو مٹانے کے لئے آخری کارڈ کھیلا۔دونوں قائد اعظم سے ملنے آئے اور کہنے لگے آپ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے پاکستان حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ق?ئد اعظم نے کہا یس !! دونوں نے یک زپان۔ہو کر کہا کہ اگر آپکو ہندوستان کا وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ مسلمان وزیر اعظم ہوگا تو مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ خود بخود ہو جائے۔ایسے میں پاکستان بنانے کی کیا ضرورت ہے۔قائد اعظم نے کہا نو  …قائد اعظم تحریک پاکستان پر سمجھوتہ کرکے ہندوستان کے وزیر اعظم بن جاتے تو آج پاکستان ایک آزاد ملک نہ ہوتا۔گاندھی اور وائسراے نے قائد اعظم کو عہدے کا لالچ دے کر اپنے مقصد اور منشور سے ہٹانے کی سازش کی۔جو قائد اعظم نے اپنے وژن سے ناکام بنا دی۔قائد اعظم کے علاوہ اس صدی کی انقلابی لیڈر شپ میں نیلسن منڈیلا اور امام خمینی کو دنیا عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔انقلاب کا لفظ ہم اکثر سنتے ہیں ۔عمران خان بھی پاکستان میں مدینہ کی ریاست کی طرز پر انقلاب برپا کرنے کے خواب دکھا رہے تھے۔?عصابی طور مضبوط انسان ہونے کے باوجود کان کے کچے اور جلد باز ہیں۔راقم الحروف عمران خان کو بہت قریب سے جانتا ہے۔اس لئے انکی شخصیت پر رائے زنی کر سکتا ہے۔بات ہو رہی تھی انقلاب کی۔انقلاب کا لفظ دراصل قلب سے نکلا ہے۔انقلاب کی مختلف اقسام ہوتی ہے ۔دنیا کا پہلا عظیم المرتبت انقلاب حضرت محمد صہ لائے۔وہ انقلاب تھا قلب کا پلٹ جانا۔جب لوگوں کا قلب پلٹا انہوں نے اللہ اور خاتم النبین پر ایمان لایا تو دنیا میں اسلام کا انقلاب برپا ہو گیا۔آج دنیا کا کونسا خطہ ہے جہاں مسلمان نہیں ۔انقلاب کی دوسری قسم سوچ کا پلٹ جانا۔جب برصغیر کے مسمانوں۔کے اندر اپنے علیحدہ ملک کی سوچ پیدا ہوئی تو اسلام کے نام پر دنیا کے نقشے پر پاکستان۔کے نام سے ملک ابھرا۔ایک فوجی انقلاب بھی ہوتا ہے جس میں فوج اپنی طاقت اور زور بازو سے ملک کے سنگھاسن اقتدار پر قبضہ کر لیتی۔فوجی انقلاب سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے۔اسکا مزہ پاکستانیوں نے بھی چکھا ہے۔
کسی تحریک میں شامل متفرق الخیال لوگ انقلاپ نہیں لا سکتے ۔انقلاب ایک سوچ رکھنے والے ایک منزل کے جدوجہد کرنے والے ہی لا سکتے ہیں۔پاکستانی قوم نے بھی بدلاؤ کی خاطر بڑے دھوکے کھائیں ہیں۔یہاں جو بھی رہبر آیا اسنے رہزن بنکر قوم کو لوٹا ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔پاکستان دنیا کے ان خوش قسمت ترین ممالک میں سے ایک ہے۔جس میں سارے موسم ہیں۔زرخیز زمینیں ہیں ہر قسم کے اناج پھل اور سبزیاں ہیں۔پہاڑ ہیں،دریا ہیں،سمندر ہیں،ریگستان ہیں،جفاکش لوگ ہیں۔ان سب سے بڑھکر کل آبادی کے 35 فیصد نوجوان ہیں یعنی توانائیاں ہیں۔ان تمام عناصر کو مرتب کیا جائے تو پاکستانی قوم۔ دنیا کی عظیم،طاقتور اور کامیاب قوم بن سکتی ہے ۔لیکن بدقسمتی سے ان عناصر کو مرتب کرنے اور درد دل رکھنے والی قیادت نہیں ۔اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ ملک میں قیادت کا اشد فقدان ہے۔ جس کی وجہ قوم کی سوچ تقسیم در تقسیم ہوتے ہوتے ہجوم میں بدل گئی۔ جس سے کرپشن معاشرے کے وجود میں سرایت کر گئی۔ جسکے اب علاج نہیں پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے۔
چلیں اس بات کو ایک اور آسان زاویہ اور طریقہ کار سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان میں آج کتنے لوگ پرسکون اور نارمل ہیں؟پاکستان میں پرسکون اور نارمل رہا جاسکتا ہے؟ انسان معاشرے میں انسانوں سے ملتا جلتا اور معاملات کرتا.  ہے۔کبھی ہم نے خود کو دنیا سے غیر ضروری کر کے اپنے آپ سے ملاقات کی؟ اگر کی ہے تو کیا بحیثیت مسملمان اور انسان ریاست کے لئے اپنے حصے کا کردار بطریق احسن نبھا رہے ہیں؟کیا ہماری   سوچ میں کہیں کوئی چنگاری تو چھپی نہیں؟ ہاں سوچ کی راکھ میں کہیں ایک چنگاری تو چھپی ہے۔کیا ہے وہ سوچ کی راکھ میں چھپی چنگاری؟،ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ریاستی ادارے اپنی اپنی حدود و قیود میں رہ کر اپنے فرائض منصبی سرانجام دیں۔لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔لیکن پورا سچ بھی بولنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ہر پاکستانی سوچتا ہے ۔لیکن سوچ ایک خاص حد کے بعد بکھر بکھر سی جاتی ہے۔لیکن وڑن دیوار کے پیچھے دیکھنے کا نام ہے۔دیوار کے پیچھے دیکھنے والا وڑن اور سوچ سیآگے سوچ ریاستی اداروں کو اپنی آئینی اور جمہوری حدود و قیود میں دیکھنا چاہتے ہیں۔لیکن منہ کو لگے اقتدار اور طاقت کے خون میں بدمست عناصر بڑے بے خبر ہیں۔کہیں وہ سوچ کی راکھ میں چھپی چنگاری بھڑک گئی تو سب خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی ۔سب کچھ جلا کر خاکستر کردے گی۔اس لئے توڑ کی سوچ کا قتل اور جوڑ کی سوچ کو نیا جنم دینا ہو گا۔ورنہ . .بس آگے ہر ایک کو خود سوچنا ہے.  اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی لکیریں

منظر الحق Manzarhaque100@gmail.com  قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا ...