صاحب کردار بیوروکریٹ ، کرپشن اور پاکستان

  ضیاء پاشیاں…ڈاکٹر شہباز احمد چشتی 
Dr.shahbazadvocate@gmail.com 
اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست پاکستان میں جگہ جگہ کرپشن اور بد دیانتی کے گڑھے ہیں جس طرح آکاس بیل درختوں کو جکڑ کر ان سے زندگی، نمو اور رعنائی چوس لیتی ہے۔ اسی طرح کرپٹ مافیاز نے اسلامی جمہوریہ سے عدل و انصاف اور صداقت و دیانت کے درخت کو اکھاڑ کر اسے جمہوریہِ کرپشن بنا دیا ہے مجھ جیسے لوگ جب امریکہ سے پاکستان جاتے ہیں تو کفر کے معاشرے کے عدل اور اسلامی ریاست کے غبن کا تقابلی جائزہ لے کر مضطرّب ہو جاتے ہیں بے ساختہ زبان پر آتا ہے۔ 
برباد گلستاں کرنے کو، صرف ایک ہی الّو کافی تھا
ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا
ان حالات میں ماضی کے ایک باکردار ولی اللہ افسر کی آپ بیتی شہاب نامہ کا حاصل مطالعہ پیش کرنا چاہتا ہوں شائد کسی کا سویا ہوا ضمیر جاگ اٹھے کیونکہ ایسے کردار امریکی معاشرے میں تو عام نظر آتے ہیں مگر پاکستانی معاشرے میں خال خال نظر آتے ہیں اس مرد مومن کی داستانِ حیات جس نے اعلی ترین عہدوں پر رِہ کر  اور کرپشن و برائی کے مواقع ہو نے کے باوجود اس برائی کو دیدہ و دانستہ ٹھکرا دیا۔ شہاب کی دوستی شروع میں ہی اپنی دادی اماّں کے گنوار مگر صاحبِ کردار ملازم کرم بخش سے ہو جاتی ھے کرم بخش کے پاس تسخیر قلوب کا کو ئی ایسا عمل تھا کہ  اس ان پڑھ شخص کے سامنے بڑا سے بڑا جوگی، مہنت یا جگا دری ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ شہاب صاحب لکھتے ہیں میرے پوچھنے پر ایک دن کرم بخش نے جوش میں آکر کہہ دیا کہ۔ " تیرے چاچے پر وجود کا عیش حرام ھے اسی وجہ سے مرشد نے شادی کی اجازت نہیں دی" ایسے راسخ العقیدہ اور بلند کردار شخص کے زیر سایہ شہاب کے سکول کے دن گزرتے ہیں۔ شہاب صاحب دسویں کلاس میں تھے تو انہیں چکمور صاحب کے ہندوؤں کے پروہت مکسودن پادھا جسکو علم نجوم اور رمل میں مہارت کی وجہ سے اور خسرہ، پلیگ اور ہیضہ جیسے موذی امراض  کے علاج پر کنٹرول کے باعث سارے علاقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا سے بیر یا دشمنی ہو جاتی ھے کیونکہ اس کو درود شریف  اوراذان کی آواز سے چڑ گھی۔ شہاب صاحب لکھتے ہیں کہ شروع شروع میں، میں نے اس کو تنگ کرنے اور ضد میں آ کر اونچی اونچی آواز میں درود شریف پڑھنا شروع کیا  تھا مگر بعد میں یہ وظیفہ ء حیات بن گیا۔ جب بھی وہ  بلند آواز میں ہری اوم ہری اوم کہتا تو میں جواب میں لہک لہک کے درود شریف پڑھتا۔ اس درود شریف کی برکت نے قدرت اللہ شہاب کو اعتماد اور کردار کی وہ بہاریں عطا کردی جس کا تصور موجودہ بیورکریسی میں کوئی  افسر یا حکومتی وزیر نہیں کر سکتا۔: شہاب لکھتے ہیں 
ایک روزجھنگ کے ایک پرائمری سکول کا استادرحمت الٰہی میرے دفتر میں آیا۔ وہ چند ماہ کے بعد ملازمت سے ریٹائرہونے والا تھا۔ اس کی تین جوان بیٹیاں تھیں' رہنے کیلئے اپنا گھر بھی نہ تھا۔ پنشن نہایت معمولی ہوگی' اسے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کہاں رہے گا۔ لڑکیوں کی شادیاں کس طرح ہوں گی' کھانے پینے کا خرچ کیسے چلے گا۔ اس نے مجھے سرگوشی میں بتلایا کہ پریشانی کے عالم میں وہ کئی ماہ سے تہجد میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریادیں کرتا رہا ہے۔ چند روز قبل اسے خواب میں حضور نبی کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم جھنگ جاکر ڈپٹی کمشنر کو اپنی مشکل بتاو' اللہ تمہاری مدد کریگا۔پہلے تو مجھے شک ہوا کہ یہ شخص ایک جھوٹا خواب سنا کر مجھے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کررہا ہے میرے چہرے پر شک اور تذبذب کے آثار دیکھ کر رحمت الٰہی آبدیدہ ہوگیا اور بولا جناب میں جھوٹ نہیں بول رہا' اگر جھوٹ بولتا تو شاید خدا کے نام پرتو بول لیتا لیکن حضور نبی کریم ﷺ کے نام پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہوں' اس کی اس منطق پر میں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ آپ نے سنا نہیں کہ ''باخدا دیوانہ وبامصطفی ہشیار باش'' یہ سن کر میرا شک پوری طرح رفع تو نہ ہوا
 لیکن سوچا کہ اگر یہ شخص غلط بیانی سے بھی کام لے رہا ہے تو ایسی عظیم ہستی کے اسم مبارک کا سہارا لے رہا ہے جس کی لاج رکھنا ہم سب کافرض ہے۔ چنانچہ میں نے رحمت الٰہی کو تین ہفتوں کے بعد دوبارہ آنے کیلئے کہا۔اس دوران میں نے خفیہ طور پر اس کے ذاتی حالات کا کھوج لگایا اور یہ تصدیق ہوگئی کہ وہ اپنے علاقے میں نہایت سچا' پاکیزہ اور پابند صوم و صلوٰہ آدمی مشہور ہے اور اس کے گھریلو حالات بھی وہی ہیں جو اس نے بیان کیے تھے۔ اس زمانے میں کچھ عرصہ کیلئے صوبائی حکومت نے ڈپٹی کمشنروں کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ سرکاری بنجر زمین کے آٹھ مربع تک ایسے خواہش مندوں کو طویل میعاد پر دے سکتے تھے جو انہیں آباد کرنے کیلئے آمادہ ہوں۔ میں نے اپنے مال افسر غلام عباس کو بلا کر کہا کہ وہ کسی مناسب جگہ کراون لینڈ کے ایسے آٹھ مربع تلاش کرے جنہیں جلدازجلد کاشت کرنے میں کوئی خاص دشواری پیش نہ آئے۔ 
مال افسر نے غالباً یہ سمجھا کہ شاید یہ اراضی میں اپنے کسی عزیز کو دینا چاہتا ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پکی سڑک کے قریب نیم آباد سی زمین ڈھونڈ نکالی اور رحمت الٰہی کے نام الاٹمنٹ کی ضروری کارروائی کرکے سارے کاغذات میرے حوالے کردئیے۔دوسری پیشی پر جب رحمت الٰہی حاضر ہوا تو میں نے یہ نذرانہ اس کی خدمت میں پیش کرکے اسے مال افسر کے حوالے کردیا کہ یہ قبضہ وغیرہ دلوانے اور باقی ساری ضروریات پوری کرنے میں اس کی مدد کرے'تقریباً 9 برس بعد میں کراچی میں فیلڈمارشل جنرل ایوب کے ساتھ کام کررہا تھا کہ ایوان صدر میں میرے نام ایک رجسٹرڈ خط موصول ہوا (اس زمانے میں پاکستان کا صدر مقام اسلام آباد کی بجائے کراچی تھا)یہ ماسٹر رحمت الٰہی کی جانب سے تھا کہ اس زمین پر محنت کرکے اس نے تینوں بیٹیوں کی شادی کردی ہے اور وہ اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم آباد ہیں۔ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ فریضہ حج بھی ادا کرلیا ہے' اپنے گزارے اوررہائش کیلئے تھوڑی سی ذاتی زمین خریدنے کے علاوہ ایک کچا کوٹھا بھی تعمیر کرلیا ہے۔ اسی خوشحالی میں اب اسے آٹھ مربعوں کی ضرورت نہیں' چنانچہ اس الاٹمنٹ کے مکمل کاغذات اس خط کے ساتھ واپس ارسال ہیں تاکہ کسی اور حاجت مند کی ضرورت پوری کی جاسکے۔ خط پڑھ کر میں کچھ دیر کیلئے سکتے میں آگیا' میں اس طرح گم سم بیٹھا تھا کہ صدر پاکستان کوئی بات کرنے کیلئے میرے کمرے میں آگئے ''کس سوچ میں گم ہو'' انہوں نے حالت بھانپ کر پوچھامیں نے انہیں رحمت الٰہی کا سارا واقعہ سنایا تو وہ بھی نہایت حیران ہوئے کچھ دیر خاموشی طاری رہی پھر وہ اچانک بولے۔ تم نے بہت نیک کام سرانجام دیا ہے۔ میں گورنر کو لاہور ٹیلیفون کردیتا ہوں کہ وہ یہ اراضی اب تمہارے نام کردیں۔میں نے نہایت لجاحت سے گزارش کی کہ یہ میں اس انعام کا مستحق نہیں ہوں یہ سن کر صدر پاکستان بولے کہ تمہیں زرعی اراضی حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ''جی نہیں سر'' میں نے التجا کی۔آخر میں فقط دو گز زمین ہی قبر کیلئے کام آتی ہے' وہ کہیں نہ کہیں' کسی نہ کسی طرح سے مل ہی جاتی ھے ،خلاصہ یہ ھے کہ انسان مر بھی جائے تو اس  کا علم و کردار اس کو ہمیشہ زندہ و جاوید رکھتا ھے۔سیاست، دین اور روحانیت کے ہر طالبعلم کیلئے تعمیرِ کردار اور تشکیلِ شخصیت  کے لئے  شہاب نامہ کا مطالعہ بہت ضروری ہے( صاحب مضمون: ڈائریکٹر ضیاء الکرم اسلامک سینٹر  نیو یارک ہیں)

ای پیپر دی نیشن