ریت یہی ہے کہ جون شرو ع ہونے تک ملک بھر میں گرمی شدت اختیار کر چکی ہوتی ہے ۔اس گرمی کی انتہا اس وقت ہوتی ہے جب حکومتےں بجٹ میں نئے نئے ٹےکس لگا کے مزےد مہنگائی کی راہ ہموار کےا کرتی ہےں ۔ پچھلے کچھ مہےنوں سے ےہ سننے مےں آرہا ہے کہ اس بار حکومت واقعی عوام دوست بجٹ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔اس کی بہت سی وجوہات ہےں۔پہلی وجہ تو ےہ انتخابات کا سال ہے اور سےاستدانوں نے ووٹ لےنے عوام کے پاس جانا ہے اس لےے حکمران ہر ممکن کوشش کرےں گے کہ اس سال عوام کو جتنا ممکن ہو سکھ دےا جاسکے۔ دوسرا اہم نقطہ ےہ بھی ہے کہ سابقہ حکومت کی وعدہ خلافےوں کو وجہ بنا کے آئی ایم ایف ہمےں قرض دےنے سے انکار کےے جارہا ہے۔ اب حکمران اس کا فائدہ اس طرح لے سکتے ہےں کہ پہلے اپنے شاہانہ اخراجات کم کرےں پھر عام استعمال کی چےزوں کی قےمتےں کم کرنے کے لےے مو¿ثر حکمت عملی اختےار کرےں۔اب ےہی دےکھ لےجےے کہ رمضان کے دنوں پھل فروٹ،آلو پےاز،لےموں اور سبزےوں کی قےمتےں اچانک بڑھ گئی تھےں۔
ہمارے حکمرانوں کو بہت سے اندرونی و بےرونی مسائل کا سامنا رہتا ہے اس لےے ان کی توجہ بٹی رہتی ہے ۔ مہنگائی دنےا بھر مےں بڑھ رہی ہے ۔دنےا کے چند اےک ملک چھوڑ کے عوام ہر کہےں پرےشان ہے۔موسمےاتی تبدےلےوں نے دنےا کے ہر باشعور انسان کو ڈرا کے رکھ دےا ہے کہ آنے والا کل کےا مصےبت لے کے آتا ہے۔ اب حکومت کے وزےر خزانہ نے پٹرول کی قےمت مےں واضح کمی کی ہے۔ چاہےے تو ےہ تھا کہ جس طرح پٹرول کی قےمتےں بڑھنے سے اشےا ءضرورےہ کی قےمتےں بڑھ جاتی رہی ہےں اسی طرح پٹرولےم مصنوعات کی قےمتوں مےں ہونے والی کمی کے چلتے ہر جنس کا نرخ کم ہوجاتا۔ لےکن اےسا بالکل بھی نہےں ہورہا۔ مانا کہ حکومتی سطح پر کوشش کی جارہی ہے لےکن انتظامےہ اور قےمت کنٹرول کرنے والے نوکر اس دوران بھی عوام کو سہولت فراہم کروانے کی بجائے اپنی جےبےں گرم کرنے مےں لگے ہوئے ہےں۔
آپ غور کےجےے کہ پرائس کنٹرول کمےٹےوں کی سستی کے سبب پچھلے مہےنے گوجرانوالہ مےں دودھ کی قےمت مےں ےکمشت پچاس روپے فی کلو اضافہ ہوچکا ہے۔ ڈی سی دفتر مےں اس حوالے سے منعقد ہونے والی مےٹنگز کی تصاوےر تو دےکھی ہےں لےکن دودھ ہم دو سو روپے کلو ہی خرےدنے پر مجبور ہےں۔ اورےہ خبر تو عام ہے کہ صاحب لوگوں کی نرمی کی وجہ سے بہت سے پمپوں پر پٹرول کے پےمانے درست نہےں ہےں۔ بغےر روٹ پرمٹ، بغےر لائسنس اور پاسنگ بہت سے چنگ چی رکشے اےک طرف شہر کی سڑکوں پر دوڑےں لگاتے نظر آتے ہےں اور ساتھ ساتھ من مرضی کراےہ وصول کےے جارہے ہےں۔ پتا نہےں کےوں اےسا لگتا ہے کہ پاکستا ن مےں رےاست سے زےادہ ادارے،محکمے اور بےورکرےٹس تگڑے ہو چکے ہےں۔ ےہی وجہ ہے کہ حکومت لاکھ کوشش کرلے، منڈےو ںمےں اشےاءکی قےمتےں کم کروالے لےکن عام آدمی ہر چےز مہنگے داموں خرےدنے پر مجبور ہے۔ مہنگائی پر کنٹرول کے لےے بہت ضروری ہے کہ قےمتو ںکے تعےن اور اس پر عمل کروانے والوں پر سختی کی جائے۔
اےک اور نقطہ ےہ بھی ہے کہ پاکستانی عوام تو جےسے اپنے لےے جےنا ہی بھول چکے ہےں ۔ہر کوئی پرےشان ہے ۔ ہر کوئی گزرے وقت کو ےاد کر کے آہےں بھرتا ہے جب گھر کچے مگر دل سچے ہوا کرتے تھے۔ وہ اےسا وقت تھا کہ جب مہمان گھر آتے تو ان کی تواضع کے لےے گھر کی مرغی،دودھ، لسی اور چٹنی و غےرہ پےش کی جاتی۔مطلب مہمانوں کی آمد پہ نہ جیب پہ بوجھ پڑتا اور نہ دل پر۔ ےوںسستے میں رشتوں کی محبت بڑھتی رہتی مگر آج مہمان آجائے تو گھر کی خواتین کی جیسے جان پہ بن آتی ہے۔ وہ مہمان آنے سے پہ پہلے گھر کی سجاوٹ دیکھتی ہیں پھر مہمان کے حساب سے میاں صاحب کی بازار دوڑ لگوادیتی ہیں، ےعنی کچے سے پکے گھروں کے سفر نے ہمارے دلوں کو خلوص اور مروت سے دور کردےا ہے۔ہمارے تہوار اور ہماری تقرےبات ہمےں آپس مےں کے قرےب کرنے کے بجائے اےک دوسرے سے دور کر رہے ہےں ۔
ہم مغربی دنےا کے چھوٹے گھروں کی مثال تو دےتے ہےں مگر ہم سے ہر کوئی شہر کی اچھی سے اچھی سوسائٹی مےں بڑا گھر بنانا چاہتا ہے۔سب ےہ مانتے ہےں کہ سوسائٹی مےں نام اور بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کی دوڑ مےں ان کا سکون کہےں کھو گےا ہے مگر کوئی بھی اپنے اردگرد بچھائے دکھوں کے گرداب سے نکلنے کی کوشش نہےں کر رہا ہے۔ ہم جانتے ہےں کہ گھر کی بیٹھک میں مہمان یا دوست کو کھانا کھلانا باعث برکت ہے لےکن ہم پھر بھی دعوت کے نام پر باہر ہوٹلوں مےں اکٹھے ہوتے ہےں۔ سبات کی جاتی ہے کہ کچھ وقت پہلے تک خواتےن اپنے گھروں کا بجٹ بہت اچھا بناےا کرتی تھےں۔ وہ اخراجات کو شوہر کی آمدن سے کم رکھنے کے لےے ہر حےلہ اختےار کرتیں۔ صاحب خانہ کو بتا کر ےا چھپا کر ہر مہےنے کچھ نہ کچھ پےسے جمع کرتی رہتےں اور ان پےسوں کوکسی اچانک ضرورت کے وقت شوہر کے ہاتھ پہ رکھ دےتیں۔ آج بھی اگر ہم اپنی زندگےوں مےں سکون چاہتے ہےں تو ہمےں اپنی آمدن کے حساب سے بجٹ بنانا سےکھنا ہوگا۔