ممتاز نغمہ نگار کیفی اعظمی سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی زندگی اور جدو جہد کو کس طرح ایک جملے میں بیان کر سکتے ہیں؟ کہنے لگے : ’میں غلام ہندوستان میں پیدا ہوا، آزاد ہندوستان میں جی رہا ہوں اور مروں گا سوشلسٹ ہندوستان میں‘۔ پھر انھیں کتنا یقین تھا کہ اپنی بات یوں مکمل کی:’اس میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔ اگر اس کے لیے مجھے زیادہ جینا پڑا تو جی لوں گا مگر مروں گا سوشلسٹ ہندوستان میں۔ اسے نہ کوئی بال ٹھاکرے روک سکے گا اورنہ کوئی ایل کے ایڈوانی‘۔ بال ٹھاکرے اور لال کرشنا ایڈوانی دونوں ہندوستانی ہندو انتہا پسند لیڈر ہیں۔ ادھر پاکستان میں بے امیدی کا یہ عالم ہے کہ اک شاعر چیخ اٹھا تھا:
کہیں ہم کو دکھا دو اک کرن ہی ٹمٹماتی سی
کہ جس دن جگمگائے گا شبستاں ہم نہیں ہوں گے
لیکن آغاز میں کتنی امیدیں وابستہ تھیں۔ ہندوستان میں کرشن چندر ، عصمت چغتائی اور کئی جگادری ادیب بیٹھے تھے ۔ جب عصمت چغتائی نے منٹو سے پوچھا: ’آپ پاکستان جا کر کیا کیجیے گا؟وہاں آپ کی حیثیت کیا ہوگی؟ ‘ تو منٹو نے خوش خیالی سے ایسا جواب دیا جو آخر دم تک صرف ان کے ہی نہیں، ان کی پوری نسل کے حواس و گمان پر آسیب کا سایہ کیے رہا۔ اس نے جواب دیا تھا:’وہاں ہم ہی ہم ہوں گے‘۔ پھر وہاں عوام’ ہم ہی ہم‘نہ رہے ۔ رہی آزادی تو پہلی یومِ آزادی کا خیر مقدم ہمارے فیض صاحب یوں کرتے ہیں:
ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
امید ختم ہو جائے تو معاشرے میں بے صبرا پن جنم لیتا ہے ۔ جب صبر اور شکر کی عادت نہ رہے تو معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے ۔ خوشگوار روےے ختم ہو جاتے ہیں۔ شائستگی کہیں نظر نہیں آتی ۔ غربت گالی بن جاتی ہے اور گالی بن کر جینے والے ہر بات سے بے نیاز بس وہی کرتے ہیں جو انھیں بھلا لگتا ہے ۔ پاکستانی معاشرے میں آنے والے اچھے دنوں کی امید ختم ہوئی یا کی گئی ؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ 1947ءہم نے غیر ملکی تسلط سے آزادی ضرور حاصل کر لی لیکن ہم اپنا جمہوریت کا سفر شروع بھی نہ کر سکے ۔ غیرملکی تسلط سے چھٹکارے کے ابتدائی دنوں میں ہی حضرت قائد اعظم کو ایک نوجوان فوجی کو ڈانٹ کر سمجھانا پڑا تھا کہ ’یہ ہم سویلین ہیں جو ملکی پالیسی کا فیصلہ کریں گے ۔ آپ نے صرف ہمارے جاری کردہ احکامات پر عمل درآمد کرنا ہے‘۔ پھر نوابزادہ لیاقت علی خان بھی جمہوری مزاج حکمران ثابت نہ ہوئے ۔ وہ ریاست اور حکومت میں فرق نہ سمجھ سکے ۔ ایک انتخابی مہم میں کہنے لگے:’مسلم لیگی حکومت کی مخالفت ریاست کی مخالفت ہے‘۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ آرمی چیف کو وزیر دفاع بھی بنا دیا گیا۔ اب وہ اپنا افسر بھی تھا اور ماتحت بھی ۔ اب آگے پڑھتے جائیے۔ پہلا مارشل لاء1958ءمیں لگایا گیا۔ دوسرا مارشل لاء1969ءمیں لگایا گیا ۔ تیسرامارشل لاء1977ءمیں لگایا گیا۔چوتھا مارشل لاء1999ءمیں لگایا گیا۔ موجودہ حکومتی بندوبست کو سابق وزیر اعظم عمران خان نیم مارشل لاءقرار دے رہے ہیں۔ اپنے گزشتہ کالم میں کالم نگار نے لکھا تھا کہ ’عمران خان میثاقِ جمہوریت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے شدید ردعمل کا نام ہے‘۔ یہ میثاقِ جمہوریت کیا ہے ؟ 14 مئی 2006ءکو دو بڑی سیاسی جماعتوں نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے میثاقِ جمہوریت کے نام سے آٹھ صفحات پر مشتمل ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اہم نکات میں دفاعی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے ،منتخب حکومت کے خلاف کوئی سازش نہ کرنے اور آئندہ کسی فوجی حکومت میں شامل نہ ہونے ، رقبوں کی الاٹمنٹ نہ کرنے کا عہد کیا گیا۔ان حالات میں سیاست کے اسٹیج پر عمران خان کی انٹری کروائی گئی ۔ انھوں نے سیاستدانوں کی کرپشن کا اتنا رولاغولا ڈالا جیسے ملک بھر میں صرف سیاستدان ہی کرپٹ ہیں۔ ایک کرپٹ معاشرے میں بہتی گنگا میں سبھی نے ہاتھ دھوئے تھے ۔ تاجروں، صنعتکاروں سمیت کوئی بھی پیچھے نہ رہا تھا۔ عمران خان ہماری سیاست کا ایک پراسرار کردار ہے اپنے ساڑھے تین سالہ حکومتی دور میں وہ غیر مقبول ترین حکمران رہے ۔ ان کے دور حکومت میں لوگ یہ سوچنے پر بھی مجبورہوئے کہ کیا حکمرانی میں اہلیت دیانت سے زیادہ اہم ثابت ہوتی ہے؟ اس زمانے میں عمران خان کے پرستار لوگوں سے منہ چھپائے پھرتے تھے۔ پرستار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، پارٹی ممبران کا نہیں۔ ایک سیاسی جماعت کے کارکن اپنے سیاسی قائد کی محبت میں اپنا پرسش کا حق ہرگز گنوانے کو تیار نہیں ہوتے۔ ادھر سیاسی عدم تربیت کے باعث اچھے بھلے سمجھدار لوگ اپنی پسند کے سیاسی قائد کے غلط فیصلوں اور بد دیانتیوں کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے اتاراگیا تو لوگوں نے انھیں سر آنکھوں پر بٹھا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی مقبولیت حضرت قائد اعظم اور ذو الفقار علی بھٹو کے ساتھ ساتھ ہی پہنچ گئی۔ علم سیاسیات کے ریسرچ اسکالر تحقیق کریں کہ 1977ءمیں الیکشن دھاندلی کے خلاف چلائی گئی احتجاجی مہم تحریکِ نظامِ مصطفی میں کیسے ڈھل گئی جبکہ اس تحریک کو چلانے والی قومی اتحاد میں سیکولر سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں۔ خطیب رفیق احمد باجوہ کی خطابت کے پس پردہ کیا راز تھاکہ اس نے ایک سیاسی تحریک کو خالصتاً مذہبی تحریک بنا دیا۔ اسی طرح اس پر بھی ریسرچ کی ضرورت ہے کہ کس طرح ایک انتہائی غیر مقبول حکمران ایوان حکومت سے باہر آتے ہی مقبولیت کی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگا۔ آج چاروں صوبوں کے پندرہ سے پینتیس برس کے نوجوانوں کے دل عمران خان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ کوئی سیاسی پروگرام نہیں، کوئی منشور نہیں، بس لوگ ایوان حکومت میں عمران خان کی واپسی چاہتے ہیں۔