کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گر اں ہے کہ نہیں َِ

دانش… پروفیسر سید محمد ابرار شاہ بخاری
    Peerji63@gmail.co

اس بارے میں کوئی دو آراءنہیں کہ کسی ملک کی معاشی ، سیاسی، معاشرتی ، اخلاقی ، تہذیبی ، تمدنی، نظریاتی اور روحانی ترقی میں تعلیم کا کردار سب سے بنیادی اور اہم ہے۔ جدید ترقی یافتہ معاشرے تعلیم کے بل بوتے پر ہی اقوام عالم میں سیاست، معیشت، معاشرت اور تہذیب و تمدن کے افق پر چھائے ہوئے ہیں، چین، امریکہ اور یورپ نے اپنے نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور آج اس تعلیمی شعور ، آگہی اور ادراک کی وجہ سے یہ ممالک ، اقوام عالم میں سیادت اور قیادت کے علم بردار بنے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حکومتی سطح پر تعلیم کو کبھی اولین ترجیح نہیں دی گئی ، تعلیم کا شعبہ دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ تعلیم کے لئے ہمیشہ بہت کم بجٹ مختص کیا جاتا رہا اور آج 76 سال بعد بھی یہی صورت حال ہے نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ، درماندہ،زبوں حال اور دگر گوں رہا۔ ابھی تک پاکستان میں تعلیم کا کوئی ایک نظام اور نصاب وضع نہیں کیا جاسکا۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جن میں سہولیات کا فقدان ہے، بنیادی ضرورتیں بھی میسر نہیں، پاکستان میں ناقابل یقین طور پر اب بھی ایسے سرکاری سکول ہیں جہاں کھلے آسمان کے نیچے تعلیم دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش ، سری لنکا، بھوٹان، مالدیپ، نیپال، یہاں تک کہ افغانستان کی شرح خواندگی بھی پاکستان سے بہت بہتر ہے، دوسری طرف مہنگے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں جن میں صرف صاحب استطاعت طبقہ ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے دیگر مسائل تو اپنی جگہ ، لیکن سب سے تشویش ناک مسئلہ اساتذہ کی شدید کمی ہے ، دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں کا تو ذکر ہی کیا، شہروں میں بھی تدریسی سٹاف کی شدید قلت ہے۔ گزشتہ عشرے میں بے شمار اساتذہ ریٹائر ہو چکے ہیں اور آنے والوں سالوں میں بہت سے اساتذہ مدت ملازمت پوری کرکے فارغ ہو جائیں گے۔ میں گورنمنٹ گریجویٹ کالج آف کامرس راولپنڈی سے وابستہ رہا ہوں اور چالیس سالہ ملازمت کے بعد حال ہی میں ریٹائر ہوا ہوں۔ 2018 سے لے کر 2024 تک کے چھ سالوں کے دوران اس کالج کے کم و بیش 30 اساتذہ ریٹائر ہوچکے ہیں اور باقی ماندہ بھی عنقریب ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اس صورت حال سے طلبائ و طالبات میں شدید بے چینی ، اضطراب اور تشویش پائی جاتی ہے کہ اساتذہ کی تعداد میں تیزی سے واقع ہونے والی کمی کے بعد ان کا تعلیمی مستقبل کیا ہو گا۔ اگر چہ یہ موضوع بڑا تفصیل طلب ہے لیکن مختصراََ عرض ہے کہ میرے پیش نظر کا ر پردازانِ شعبہ تعلیم کے لئے ایک تجویز ہے زیادہ تر ریٹائرڈ اساتذہ ریٹائرمنٹ کے بعد پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں درس و تدریس سے وابستہ ہو جاتے ہیں یا اپنی آمدنی میں اضافے کے لئے کوئی اور کام کرتے ہیں۔ میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ اساتذہ ریٹائرمنٹ کے بعد کم و بیش دس سے بارہ سال تک جسمانی اور ذہنی طور پر فعال اور متحرک ہوتے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ اگر ریٹائر ڈ اساتذہ کو ان کی پینشن کا 30 یا 35 فیصد دے کر انہیں تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کی ذمہ داری دے دی جائے تو اس سے اساتذہ کو بھی مالی فائدہ ہو گااور حکومت پر بھی بہت کم بوجھ پڑے گا۔ طلباء و طالبات کو بھی اعلی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار اساتذہ سے استفادے کا موقع ملے گا۔ آج کل زیادہ تر اساتذہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر رکھے جارہے ہیں۔ مالی بحران کی وجہ سے مستقل بنیادوں پر بہت کم تقرریاں ہو رہی ہیں۔ کنٹریکٹ اساتذہ ، غیر محفو ظ، غیر یقینی اور عارضی کنٹریکٹ ملازمت کی وجہ سے کبھی ذہنی یکسوئی اور کمنٹمنٹ کے ساتھ اپنے فرائض ادا نہیں کرسکتے میری یہ تجویز قابل عمل ہے اور اس سے معاشرے کے غریب اور متوسط طبقے کے طلباءو طالبات کو کم پیسوں میں معیاری تعلیم فراہم کی     جاسکتی ہے۔ امید ہے کے شعبہ تعلیم کے ارباب بست و کشاد اس تجویز کے عملی نفاذ پر غور و خوض کریں گے۔ معاشی اور مالی بحران کی وجہ سے چونکہ حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنوں     کی ادائیگی میں مشکل آرہی ہے اندریں حالات نئے اساتذہ بھرتی کرنے اور ان کی تنخواہوں کا بوجھ اٹھانے کی بجائے، حکومت ریٹائرڈ اساتذہ کو تھوڑے سے معاوضہ کے عوض ان کی خدمات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اس سے حکومت کا مالی بوجھ بھی کم ہو گا اور طلباءو طالبات کا مستقبل بھی محفوظ اور بہتر بنایا جا سکے گا۔ اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دیگر شعبہ ہائے جات میں خدمات کی انجام دہی کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔میں مختلف سماجی مسائل کی نشان دہی کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ان کی طرف ارباب اختیار کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس توجہ دلانے کی کوشش کے مثبت نتائج نکلتے ہیں اور مسائل کی شنوائی بھی ہوتی ہے۔ حال ہی میں۔ میں نے 9th ایونیو پر نو تعمیر اوور ہیڈ برج کے نیچے پانی کے اخراج اور ٹھراﺅ کے حوالے سے کمشنر راولپنڈی اسلام آباد اور حلقے کے ایم این اے کو ایک درخواست دی تھی۔ پانی کے اس مسلسل اخراج سے پل کے انہدام کا اندیشہ تھا۔ میری درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے متعلقہ ادارے نے پانی رِسنے کا مسئلہ حل کردیا۔ میں متعلقہ ادارے کا حکام کا مشکور ہوں جنھوں نے اس سنگین معاملے کے طرف توجہ دی اور اسے بروقت درست کردیا۔ میں اسی سے جڑے ہوئے کچھ دوسرے مسائل کی بھی نشاندہی کرناچاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ عوام الناس کی آسانی کے لئے ان چھوٹے چھوٹے مسائل کو فوری طور پر حل کر نے کے اقدامات کئے جائیں گے۔ فیض آباد سے براستہ آئی ایٹ اسلام آباد جانے اور اسلام آباد سے آئی جے پی روڈ پر آنے والا یو ٹرن مدت سے بند ہے۔ ایک لمبا چکر کاٹنے کی وجہ سے عوام کے وقت اور پیسے دونوں کا ضیاع ہوتا ہے اس لئے عوام الناس کی سہولت کے لئے اس یو ٹرن کو کھولا جائے۔آئی جے پی روڈ پر بنائے گئے نالوں میں ابھی تک کچرا اور ملبہ موجود ہے۔ ان نالوں کی مرمت اور صفائی کرائی جائے۔ ان نالوں میں صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بارشی اور دوسرا پانی جمع ہو جاتا ہے جس سے تعفن بھی پھیل رہا ہے اور بیماریوں کے پھیلاﺅ کا بھی اندیشہ ہے۔ ان نالوں کے ساتھ ساتھ اگر درخت بھی لگا دئیے جائیں تو خوبصورتی اور سائے کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی دور کرنے میں مدد ملے گی۔ پنڈورہ چونگی سے کرکت سٹیڈیم روڈ تک جو شجر کاری کی گئی تھی وہ بکرے بیچنے والوں کی نذر ہو چکی ہے۔ موٹر سائیکلوں کے لئے آہنی پلوں کی تعمیر مستحسن قدم ہے۔
آئی جے پی روڈ کے ساتھ واقع خستہ حال سروس روڈ کی مرمت کرکے اسے بہتر بنایا جائے تاکہ سیکٹر آئی نائن اور آئی ٹین میں دخول اور خروج کی آسانی ہو۔ اس سے زندہ لوگ بھی دہچکوں اور ہچکولوں سے بچ جائیں گے اور آنے ولوں مرحومین بھی نیو کٹاریاں قبرستان میں پرسکون طریقے سے اپنی آخری منزل تک پہنچ جائیں گے۔ پیرودہائی اڈے کے سامنے بنائے جانے والے آہنی پل کی جالیاں توڑ کر لوگوں نے سڑک پار کرنے کا رستہ بنا لیا ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ اس مصروف سڑک پر سے گزرنے کی بجائے پل سے سڑک پار کریں۔ آخر میں ایک حساس اور انتہائی اہم مسئلے کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ راولپنڈی میں ز چہ بچہ ہسپتال کی تعمیر کا شاندار پراجیکٹ شروع کیا گیا لیکن بوجوہ اس کی تعمیر میں رکاوٹیں پیش آتی رہیں۔ ہسپتال کا بنیادی کام ہو چکا ہے ، سٹرکچر بھی کافی حد تک مکمل ہے۔ کروڑوں روپے کے اس عوامی فلاحی منصوبے کو حکومت پنجاب کی توجہ درکار ہے۔ قلیل وقت اور قلیل سرمائے میں یہ عظیم الشان منصوبہ مکمل ہو کر راولپنڈی کی غریب اور متوسط طبقے کی خواتین کو علاج کی بہترین سہولتیں فراہم کر سکتا ہے۔ طبی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اکثر خواتین دوران حمل یا زچگی کے دوران اپنی یا بچے کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ( ایسے کئی واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں)۔ خاتون ہونے کے حیثیت سے وزیراعلی پنجاب اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کی نمائندہ عورتوں سے درخواست ہے کہ وہ غریب اور متوسط طبقے کی عورتوں کے لئے شروع کئے جانے والے اس پراجیکٹ کو مکمل کر وائیں تاکہ زچہ بچہ کو علاج کی مفت یا سستی سہولتیں فراہم کر کے ہزاروں ماﺅں اور بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔ توقع ہے کہ وزیر اعلی پنجاب خود اس پراجیکٹ کا معائنہ کریں گی اور اس کی فوری تعمیر و تکمیل کے لئے متعلقہ اداروں اور محکموں کو ہدایات جاری کریں گی اور اس علاقے کے غریب اور پسماندہ لوگوں کی دعائیں لیں گی۔ بصورت دیگر یہ بہترین عوامی فلاحی منصوبہ اور اس کی تعمیر پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے ضائع اور میٹریل نشہ کرنے والوںکے کام آئے گا جو اس کا سریا چوری کرکے اپنا نشہ پورا کررہے ہیں۔ حکومت پنجاب سے اس منصوبے کے باقی ماندہ کام کو مکمل کرانے کے لئے راولپنڈی کے عوام پر زور اپیل کرتے ہیں۔ امید ہے کہ ان کی اس اپیل پر فوری ہمدردانہ غور اور اس کی تکمیل کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن