جمشید کمبوہ
شاعری 'وہ منفرد خداداد صلاحیت ہے جو ہر کِہ و مِہ کو عطا نہیں ہوتی-
یہ منصبِ بلند ملا جس کو مل گیا !
شعر ' انسان کے عمیق احساسات ' بلیغ مشاہدات اور لطیف جذبات کا بے ساختہ و فن کارانہ اِظہار ہے جو قاری کے توسنِ فکر کو مِہمیز لگا کر ' نیلگوں آسمان کی بے کراں وسعتوں میں عازمِ سفر کرتا ہے- گویا شعر ' تعمیرِِ سیرت و کردار کے مَنہج سے' قوم سازی کا موثر ترین وسیلہ ہے
محترم بریگیڈیر (ر) ضیاءاللہ انجم بھی ان علوبخت شعرا میں سے ہیں جو نا صرف راسخ العقیدہ مسلمان ہیں بل کہ غیرت و حمیّت اور حبّ الوطنی کے جذبہ صادقہ سے بھی سرشار ہیں- انھوں نے مدّت العمر ' سرزمینِ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی قابلِ رشک محافِظت کی اور پوری دنیا میں ' اپنی پیشہ ورانہ لیاقت اور ہنر وَری کا لوہا منوایا - حیرت افروز اور قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ ضیاءاللہ انجم کی یہ فریدالمثال کام یابیاں ' پاک پتن شریف کے ایک دور افتادہ گاوں کے سکول (گورنمنٹ ہائی سکول بائیل گنج) کی ہمہ جہت تربیت کا جمال افزا اعجاز ہے - بلا شبہ ' ضیاء اللہ انجم ' اقبال کے اس شعر کا مصداق ہیں
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ' ضرب ہے کاری !
ضیاءاللہ انجم کو اس امر کا پورا پورا اِدراک ہے کہ اَئم اِبلیس و تلبیس اور حاسدانِ تِیرہ باطن ' اپنے پورے فکری لاو لشکر سمیت ' وطنِ عزیز پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر شب خون مار رہے ہیں .......اور.....بہت سے میر جعفر و میر صادق ' اسلام کے اس ناقابلِ تسخیر ایٹمی قلعے میں افتراقی شِگاف ڈالنے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں - اس تناظر میں ہماری ذِمّہ داریاں دو چند ہو جاتی ہیں کہ
نگاہ رکھنی ہے گھر کے باہر تو گھر کے اندر بھی دیکھنا ہے
"وہ کون ہیں جو ہمیں میں رہ کر ' ہمارے گھر کو جلا رہے ہیں؟ "
موصوف ' بَہ اِخلاصِ تمام ' دونوں ذمّہ داریوں سے عہدہ برا ہوتے نظر آتے ہیں-
یوں تو ' ضیاءاللہ انجم کی شاعری میں موضوعات کا ایک تنوّع نظر نواز ہوتا ہے - انھوں نے مَہد سے لحَد اور جِہاد سے مِعاد تک ' تقریباً ہر موضوع پر قلم اٹھایا ہے لیکن ان کی شاعری کا نقط ارتکاز ' پاکستان کی مضبوط جغرافیائی و تہذیبی حصار بندی ہے اور ' ان کے نزدیک ' اس کا محفوظ و مامون راستہ فرد کی تربیَت ' جذبہ حبّ الوطنی کا فِروغ ' قرآن و سنّت سے حقیقی تمسّک اور نبیِّ کونینﷺ کے دامنِ رحمت سے والہانہ وابستگی ہے ضیاءاللہ انجم کی تصنیفِ منیف " بوئے دل" کی نرم لَپٹوں سے مَشامِ جاں معطّر اور اس کی "خوش ضِیائی" سے ' بزمِ انجم رشک بیز اور تِیرہ شبی سَحَربار ہے
زیادہ شعری حوالہ جات کا یہ محل نہیں..." مشتے نمونہ از خروارے ' ان کا ایک نمائندہ شعر ' نذرِ قارئین ہے-
بھولے ہوئے راہی کی تو منزِل ہے مدینہ
بھٹکی ہوئی کشتی کا تو ساحِل ہے مدینہ
ضیاءاللہ انجم ' بے جا عروضی و فنی جکڑ بندیوں اور فلسفیانہ موشگافیوں کے قائل نہیں ' وہ سیدھے سادے اور بے ساختہ اظہار و ابلاغ پر یقین رکھتے ہیں - ان کی شاعری لطیف ' کومل ' سِجَل اور شگفتہ و شاداب جذبوں کی شاعری ہے جس کی دل فریبی و دل آویزی کا جادو ' ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا رہے گا- " بوئے دل " کی پذیرائی کے بعد ' ادبی دنیا ' ان کی " ضیائے دل " کی ضیا باری کی تمنّائی رہے گی !
جمشید کمبوہ
پاک پتن شریف