ہم سوالوں کا پیچھا نہیں کرتے 

Jun 05, 2024

خالدہ نازش

پس آئینہ 
خالدہ نازش 

کچھ باتوں کی سمجھ ہمیں بہت دیر سے آتی ہے ، اور جب سمجھ آتی ہے اس وقت تک بات اپنی اہمیت کھو چکی ہوتی ہے ، اور ہم اس کے نتائج بھی بھگت چکے ہوتے ہیں - کبھی کبھی تو کچھ باتیں ہماری سمجھ سے بالکل باہر ہو جاتی ہیں ، یا پھر ہماری سمجھ کا دائرہ اتنا وسیع نہیں ہوتا کہ سمجھ ان تک پہنچ پائے کیونکہ سمجھ کی بھی منزلیں ہوتی ہیں اور ہم زیادہ تر اس کی سطحی منزل پر رہ کر ہر بات کو اپنے معیار ، معلومات اور اعتقاد کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں - سطحی منزل سے آگے سمجھ کو تجسّس اور بے چینی کا سفر درپیش ہوتا ہے - جتنا گہرائی میں اترتے جائیں گے بے چینی اور تجسّس بڑھتا جائے گا جو کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے تجربہ گاہ کا کام کرتا ہے - یہ ایک تھکا دینے اور نظر نہ آنے والا سفر ہے ، ایک لمبی مسافت کے بعد ایسا سفر معرفتِ الٰہی تک بھی پہنچا دیتا ہے - ہم اپنی ذات کے پوجاری اپنی ذات کے خول سے ہی باہر نہیں نکل پاتے اور کھوکھلی ہواو¿ں میں اڑتے رہتے ہیں - میں نے ایک دن اپنے گرد زندگی کا گیرا تنگ کر کے اپنا احتساب کرنا چاہا مگر اس ڈر نے مجھے روک دیا کہ پھر راہ فرار نہیں ملے گی ، زندگی بھاگنے کا موقع نہیں دے گی جبکہ ہمیں راہ فرار چاہیے ہوتی ہے - ہم کبھی بھی خود کو اپنی غلطیوں پر سزا نہیں دینا چاہتے - ہم اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کو اگر ہمارے خلاف جا رہے ہوں تو ان کو توڑ کر خود کو بھاگنے کا موقع دے دیتے ہیں - ہم ہمیشہ اپنے پاس ڈبل چوائس رکھتے ہیں - نیکیوں کے ساتھ ساتھ گناہ بھی کرتے رہتے ہیں ، محبتوں میں نفرت کا عنصر بھی رکھتے ہیں ، رشتوں میں بے حسی کی ملاوٹ بھی کرتے ہیں ظاہر اور باطن کوایک پیج پر نہیں رکھتے ، غرضیکہ ہم کہیں بھی بند نہیں باندھتے - زندگی میں بہت سے سوال ہمارا پیچھا کرتے رہتے ہیں اور ہم ان سے بھاگتے رہتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہمارے پاس ان کا کوئی جواب نہیں ، اگر ہم سوالوں کا پیچھا کرنے لگیں تو جواب ضرور مل جائے ، جواب حاصل کرنے کی کوشش سے روکنے والی بھی یہی سطحی سوچ ہوتی ہے جو گہرائی میں اتر کر کسی بھی بات کی تہہ تک نہ پہنچنا ہماری عادت بنا دیتی ہے اور یہ عادت ہمارے اندر کسی مشکل میں پڑنے کی تحریک ختم کر دیتی ہے ، یہاں تک کہ ہم ذمہ داری قبول کرنے کی ذمہ داری سے بھی عاری ہو جاتے ہیں ہم اپنے گناہوں ، اپنی غلطیوں ، خامیوں کوتاہیوں کا ذمہ دار خود کو ٹھہرانے کیلیے تیار نہیں ہوتے ، اس لئے کہ ہم نے ان پر گہرائی سے سوچا ہی نہیں ہوتا - ہم ایسی تمام خامیوں اور غیر ذمہ دارانہ عادتوں کے ساتھ بنا کسی سوال یا تجسّس کے روزانہ خود سے ملتے رہتے ہیں - مہاتما بدھ سکھاتے ہیں کہ اگر سوال کا پیچھا کیا جائے تو وہ سچائی تک پہنچا دیتا ہے ، چاہیے اس کے لئے یوگی ہی کیوں نہ بننا پڑے - مہاتما بدھ جن کا اصل نام سدھارتھ تھا کپل وستو کے راجا کا بیٹا تھا - شہزادہ سدھارتھ کی پرورش شاہی محل کے پرتعیش ماحول میں ہوئی ، راجا کو اپنے اکلوتے بیٹے جو اس کا جانشیں بھی تھا سے بے حد پیار تھا وہ شہزادے کو دنیا کے دکھ غم اور تمام منفی خیالات سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا اس نے شہزادے کو باہر کی دنیا دیکھنے اور دنیا کے مسائل سے واقف نہ ہونے دیا - شہزادے کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ انسان جو پہلے بچہ ہوتا ہے ، پھر جوان ہوتا ہے اور پھر بوڑھا ہو کر آخر مر بھی جاتا ہے - سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی ہوئی اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا - ایک دن اس نے محل کی زندگی سے اکتا کر باہر کی دنیا دیکھنا چاہی ، باہر کی دنیا میں آتے ہی ایک بوڑھے کو دیکھا ساتھی سے پوچھا اس کی اتنی ابتر حالت کیوں ہے ؟ اس نے بتایا " شہزادے یہ ایک بوڑھا انسان ہے جو غریب ہونے کے ساتھ ساتھ بیمار بھی ہے ، اس کے بعد وہ جتنا دنیا کو دیکھتا گیا ہزاروں غریب انسانوں سے واسطہ پڑا اور سوچنے لگا دنیا تو دکھ کا گھر ہے ، ہر انسان مسائل کا شکار ہے یہاں تک کہ اہل ثروت بھی مایوس اور ناخوش ہیں ایسا کیوں ہے ؟ یہ سوال اسے تنگ کرنے لگا اور اس نے سوچا کہ جس عیاشی کو وہ انجوائے کر رہا ہے وہ تو دھوکا ہے ، اب وہ مسلسل بےچین اور اضطراب میں رہنے لگا آخر اس نے اپنی موجودہ زندگی سے کنارہ کشی کر کے سچ کی تلاش کے لئے کہ لوگ ناخوش کیوں ہیں ؟ اور ہر انسان خوش کیسے رہ سکتا ہے خود کو وقف کر دیا ، محل چھوڑ دیا دنیا کی آسائشوں کو ترک کر دیا ایک مفلس یوگی بن گیا ، شہزادہ سدھارتھ سے بدھا بن گیا - جنگلوں بیابانوں میں جا بسا کئی سال مسلسل فاقہ کشی اور خود اذیتی کے مراحل سے گزرا یہ ریاضت بھی اسے سچائی تک نہ پہنچا سکی ، ہاتھ میں کشکول لیے در در بھیک مانگی ، مسلسل ریاضتوں کے بعد جب سچائی کو پا لیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ انسانی زندگی اپنی جبلی حیثیت میں دکھوں کا مسکن ہے ، ناخوشی کا سبب انسانی خود غرضی اور خواہش ہے انفرادی خود غرضی اور خواہش کو ختم کیا جا سکتا ہے ، اور ایسی کیفیت پیدا کی جا سکتی ہے جس میں خواہشات اور آرزوئیں فنا ہو جاتی ہیں - بدھا نے بہت سفر کیا اور جہاں بھی گے بدھ مت مذہب تیزی سے پھیلتا چلا گیا - آج دنیا میں بدھ مت کے ماننے والوں کی تعداد تقریباً 1.8 ارب ہے ایک اندازے کے مطابق دنیا کی کل آبادی کی 25 فیصد کی نمائندگی بدھ مت کرتا ہے - یہ ذہن میں اٹھنے والے سوالوں اور تلاش کا نتیجہ تھا جس نے ایک مذہب کو جنم دیا اور وہ پھیلتا چلا گیا۔

مزیدخبریں