سیاست ہمیں اس موڑ پر لے آئی ہے کہ اب دوست، دوست نہیں رہا۔ سیاست نے سب کے بیچ دوری اور گہری نفرت کی ایک لکیر کھینچ دی ہے۔ بہت ہی گھمبیر صورت حال ہے جس کا سامنا آج پوری قوم کو ہے۔ یہ حالات کا ایسا تاوان ہے جو ہر روز ہمیں پیچھے دھکیل رہا ہے۔ کب تک یہ صورت حال ایسے ہی چلے گی؟ سب کو گہری تشویش ہے۔
سیاست صرف آئین کے دائرے میں رہ کر کی جا سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاست کا وجود ہی آئین پاکستان کی وجہ سے ہے۔ آئین میں واضح ہے کہ پاکستان ایک قومی ریاست ہے۔ اس کا نظام پارلیمانی جمہوری نظام پر محیط ہے۔ جس کا آئینی نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ اس کے علاوہ آئین نے حکومت کا پورا ڈھانچہ بیان کر دیا ہے۔ جبکہ ریاستی طاقت کو مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان شعبوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں، عدلیہ اور پارلیمان شامل ہیں۔
لغت میں سیاست کے معنی حکومت چلانا اور لوگوں کی اصلاح ہے۔ لوگوں کو اصلاح سے قریب جبکہ فساد سے دور رکھنے کو سیاست کہتے ہیں۔ سیاست کسی گروہ یا جماعت کی بنائی گئی اس پالیسی کو کہا جاتا ہے جس کا مقصد ملک کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ سیاست ملک کو کامیابی پر لے جانے کا نام ہے۔ عملی طور پر سیاست کی تین اقسام ہیں۔ نظریاتی، مطالعاتی، مفاداتی۔ پاکستان میں پہلا نظریاتی سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو تھا جس نے اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام کا نعرہ دیا۔ انہوں نے روٹی، کپڑا اور مکان کو انسان کی بنیادی ضروریات قرار دیا۔ ان ضروریات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری قرار دی۔
قرآن پاک میں لفظ سیاست تو نہیں، البتہ ایسی بہت سی آیتیں موجود ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں۔ جن میں عدل و انصاف اور مظلوموں سے اظہارِ ہمدردی کی بات کی گئی ہے۔ ظالم اور ظلم سے نفرت کا بتایا گیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا آغاز 1906ئ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے ہوا۔ اس جماعت کے قیام کا مقصد ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے مفاد کا تحفظ اور ان کی نمائندگی کرنا تھا۔ اس تحریک نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بیدار کیا اور سیاسی شعور بخشا۔ جس نے بعد میں پاکستان کی بنیادرکھی اور دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان ابھر کر سامنے آیا۔
پاکستان کی 77سالہ سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو وہ عدم برداشت اور افراتفری سے بھری پڑی ہے۔ ہماری تاریخ کی ابتدائی تین دہائیاں امن سے گزریں۔ اس کے بعد جتنے بھی ادوار آئے، دہائیاں گزریں عوام کے لیے امن و محبت کا پیغام نہیں لائیں بلکہ یہ دہائیاں عدمِ استحکام کا باعث بنیں۔ اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان میں127جماعتیں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہیں۔ تاہم تین بڑی جماعتیں ایسی ہیں جنہیں آپ قومی سطح کی بڑی سیاسی جماعتیں کہہ سکتے ہیں۔ ان میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں۔ کچھ دینی اور علاقائی جماعتیں بھی ہیں جو مختلف صوبوں میں اپنا اثرورسوخ رکھتی ہیں۔ انہیں بڑی تعداد میں ووٹ ملتے ہیں۔ اس موقع پر ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام (ف) ، اے این پی اور بلوچستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ جن کی مدد کے بغیر کوئی بھی پارٹی حکومت نہیں بنا سکتی۔ ان چھوٹی جماعتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ حکومت سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ تعاون نہ کریں تو شاید کسی کی بھی حکومت نہ بن سکے۔ جماعتوں کو ایک نئے مینڈیٹ کے لیے پھر الیکشن میں جانا پڑے۔
دو جماعتی سیاسی نظام نہ ہونے سے ہمیں جس قسم کی صورت حال کا سامنا ہے۔ وہ قابل افسوس اور قابل تشویش ہے۔ ہم نے ملک میں چار مارشل لاءدیکھے۔ جس سے جمہوریت اور سیاست دونوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ سیاست اور ریاست کی ہماری کشتی کنارے نہ لگ سکی۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے ہم جس گھمبیر اور تلخ سیاسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے حقائق چونکا دینے اور دل ہلا دینے والے ہیں۔ اقتدار کی کشمکش میں ہم اتنے غافل اور اندھے ہو جاتے ہیں کہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ملک کا کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ جبکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ آہستہ آہستہ سیاست سے ختم اور ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
بانی پی ٹی آئی اس وقت جیل میں ہیں۔ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور دیگر کئی اہم پی ٹی آئی رہنما بھی اس وقت مختلف مقدمات میں پابندِ سلاسل ہیں۔ ان پر کیس جھوٹے ہیں یا سچے۔ اس کا فیصلہ تو عدالتیں ہی کریں گی لیکن پی ٹی آئی پر بہت مشکل گھڑی ہے۔ پارٹی کا نظم و نسق اور ساری سیاست سینئر پارٹی رہنماﺅں سے نکل کر اب وکلاءکے ہاتھوں میں آ گئی ہے۔ وہی پارٹی کو چلا رہے ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے سیاست بھی کر رہے ہیں۔ یہ جو خیال کیا جا رہا تھا کہ عمران خان کے جیل جانے اور لمبی قید سے شاید پارٹی ٹوٹ جائے گی۔ اس کا شیرازہ بکھر جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
پی ٹی آئی ، بانی پی ٹی آئی کی قیادت میں اب بھی متحد اور اکٹھی ہے۔ اگر یہ کہا جائے گا کہ پی ٹی آئی ہی عمران خان ہے تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔ سیاست کے اس کھیل میں کسی کو کسی کا احساس نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کو سیاست اور سیاسی مقاصد کے لیے جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں جس طرح اس آزادی کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اس سے کئی طرح کے خدشات اور ابہام جنم لے رہے ہیں۔ افواہوں کی بازگشت ہے۔ جس پر قانونی قدغن کی ضرورت ہے ، کسی بھی میڈیا فورم کو مادر پدر آزاد نہیں ہونا چاہیے۔ سیاست میں تو بردباری انتہائی ضروری ہے۔ سیاست کی موجودہ روش سے نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے بیزار اور دور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے سب قائدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سیاست کو معمول کا حصّہ بنائیں۔ نفرت میں نہ بدلیں۔ خود کو بدلیں گے، سوچ میں تبدیلی لائیں گے تو انکے فالورز بھی سوچ میں تبدیلی لائیں گے۔ جس کے سیاست پر گہرے ، اچھے اور دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔
دنیا کی مہذب قومیں سیاست کرتی ہیں تو اقدار و اطوار کو ہر صورت ملحوظ خاطر رکھتی ہیں۔ لیکن نجانے کیوں ہم سیاست میں ایک دوسرے کے رقیب بن جاتے ہیں۔ بعض اوقات اس حد تک بھی پہنچ جاتے ہیں کہ ہم سے دوسروں کا وجود برداشت نہیں ہوتا۔ یہ اچھی روایت نہیں۔ ہمیں اچھی اور بہتر روایتوں کا امین بننا ہے تاکہ ہماری سیاست صحیح سمت میں چل سکے۔