پاکستان نے چین کے ساتھ 21 مئی 1951ءکو سفارتی تعلقات قائم کیے- پاکستان چین دوستی کو ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی قرار دیا گیا - پاک چین دوستی کے باوجود پاکستان 1999ءتک چین کی کل باہمی تجارت کا صرف 0.27 فیصد حصہ حاصل کر سکا جس کی ذمے داری پاکستان کی حکمران اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے جو چین کی دوستی سے فائدہ نہ اٹھا سکی- چین کے پروفیسروں اور سکالرز نے سی پیک کے بارے میں تحقیقی مقالے لکھے ہیں جن کے انگریزی میں ترجمے کیے گئے ہیں جس کا معروف کالم نگار نصرت جاوید نے اپنے گذشتہ روز کے کالم میں مفصل تذکرہ کیا ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور محقق ڈاکٹر محمد علی شیخ نے چین کے سکالرز کے تحقیقی مقالوں کی روشنی میں ایک فیچر لکھا ہے جو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوا ہے- وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف چین کے اہم دورے پر روانہ ہو چکے ہیں۔ ان کی ٹیم کو اس فیچر کا مطالعہ کرنا چاہیے -چین کے سکالرز کی رائے ہے کہ سی پیک کے بارے میں پاکستان میں توقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ -پاکستان کے عوام سی پیک کو گیم چینجر بلکہ مقدر بدلنے والا منصوبہ سمجھنے لگے ہیں-حالانکہ سی پیک کا منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ جیسے گرینڈ منصوبے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے-
سی پیک کے نتائج اور اثرات کے بارے میں یقین کے ساتھ اس وقت ہی کہا جا سکے گا جب یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا - چینی سکالر اور پروفیسر قیان نے سی پیک منصوبے پر خرچ ہونے والی رقم 46 بلین ڈالر پر بھی سوال اٹھائے ہیں-انہوں نے کہا ہے کہ یہ رقم مستندنہیں ہے اور پاکستان کے لیڈروں نے یہ فرضی رقم اپنے سیاسی مفادات کے لیے اجاگر کر دی ہے- پروفیسر قیان کا کہنا ہے کہ اس قدر بڑی سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان کے اندر مختلف مفادات رکھنے والوں کے درمیان محاذ آرائی پیدا ہو گئی ہے اور سب یہ چاہتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کر سکیں- اس مقابلے میں پاکستان کی سیاسی جماعتیں سول ملٹری بیوروکریسی اور مختلف صوبے اور بلوچستان کے مقامی لوگ شامل ہیں-ان کا کہنا ہے کہ جہاں پاکستان کے لوگ اس منصوبے کے بارے میں بہت پر امید ہیں وہاں پر چین کے لوگ مختلف نوعیت کے شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں-چین کے دوسرے کئی سکالرز کے خیال میں پاکستان کے سیاسی لیڈروں، پاکستان کی فوج اور تحقیقی اداروں نے سی پیک سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں-البتہ پاکستان کے چند سکالرز یہ اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ سی پیک کی تکمیل کے بعد پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے گا اور اس کی خود مختاری بھی مزید کمپرومائز ہو جائے گی-
چین کی پروفیسر لی نے چین کے سرمایہ کاروں کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے جس میں کرپشن کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا اور اس کا گورنر سسٹم بھی بڑا کمزور ہے اور ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے دہشت گردی کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں- پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہے لہٰذا ان حالات میں پاکستان کے اندر سرمایہ کاری محفوظ اور منافع بخش ثابت نہیں ہو سکے گی- چین کے سکالرز کی رائے میں پاکستان میں غربت اور پسماندگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل نہیں ہیں لہٰذا ان حالات میں دہشت گردی پروان چڑھتی ہے- دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کا تعلق پاکستان کے پسماندہ صوبوں سے ہے-چینی سکالرز کی رائے ہے کہ سی پیک کے منصوبے میں بلوچستان کے مقامی عوام کے مفادات کو نظر انداز کیا گیا ہے اس لیے وہاں پر بے چینی پائی جاتی ہے-
بلوچستان کے عوام وفاقی حکومت کو اپنی محرومیوں کا ذمہ دار گردانتے ہیں حالانکہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے بعد بلوچستان کو کافی وسائل فراہم کیے گئے لیکن وہ عوام پر خرچ نہیں کیے جا سکے جن کی وجہ سے بلوچستان کے عوام آج بھی سرداروں اور قبائلی نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی لوگ انکی مشکلات ختم کر سکتے ہیں-چینی سکالر جیاو نے رائے ظاہر کی ہے کہ سی پیک کا منصوبہ مسلم لیگ کی حکومت نے شروع کیا تھا اس لیے اس نے اس منصوبے کے سلسلے میں پنجاب کو ترجیح دی جبکہ پسماندہ صوبوں بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کو نظر انداز کیا گیا-پنجاب چونکہ پاکستان کا بڑا صوبہ ہے اس لیے اسکے خلاف چھوٹے صوبوں میں تعصب پایا جاتا ہے-سی پیک کا روٹ فائنل کرنے کے لیے پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے یہ جواز پیش کیا تھا کہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے علاقے چونکہ محفوظ نہیں ہیں اس لیے اس منصوبے کے لیے شمالی کے بجائے مشرقی روٹ ہی مناسب رہے گا-سی پیک کو جس روٹ سے گزارا جا رہا ہے وہاں پر علاقے پہلے ہی ترقی یافتہ ہیں- چینی سکالر جیاو نے پاکستان کی سیاست میں موروثی اور خاندانی سیاست پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے-وہ لکھتی ہیں کہ خاندانی سیاست کی وجہ سے پاکستان کے چند خاندان بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اب اس نظام کے اثرات لوکل سطح پر بھی پہنچ رہے ہیں جہاں پر مقامی خاندانوں نے مقامی سیاست پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ عوام کے ووٹوں کو کنٹرول کرتے ہیں-خاندانی اور موروثی سیاست کی وجہ سے پاکستان کے عوام اپنے حقوق سے محروم ہیں اور وہ غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں-جیاو کے مطابق موروثی خاندان قومی مفادات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں لہٰذا سی پیک کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں ترقی کے امکانات بھی ہیں لیکن ان کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے گورننس سسٹم کو مضبوط اور مستحکم بنایا جائے، سیاسی استحکام پیدا کیا جائے تاکہ سی پیک کا منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکے-
پاکستان کے مقتدر اداروں کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ چین کے سکالرز کے تحفظات اور خدشات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور پاکستان کے حالات کو سازگار بنائیں تاکہ سی پیک سے توقعات کے مطابق زیادہ سے زیادہ قومی فوائد حاصل کیے جا سکیں - جب تک پاکستان کے حالات کو سرمایہ کاری کے لیے سازگار نہیں بنایا جائے گا چین کے دورے کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا-پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر پر قابو پانے کے لیے گرینڈ قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے تاکہ قومی اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جا سکے-پاکستان میں امن و استحکام کے بعد ہی اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے-