مقبولیت اور قبولیت

سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی بریت کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بھونچال سا آگیا ہے۔ حکومت کو بہت زیادہ توقع تھی کہ بانی پی ٹی آئی کو کسی نہ کسی کیس میں سزا ہو جائے گی۔ چونکہ انتخابات سے چند دن قبل بانی پی ٹی آئی کو ایک ہفتہ میں تین کیسز میں سزا سنائی گئی تو عام آدمی میں یہ تاثر گیا کہ اب بانی پی ٹی آئی کا بچنا مشکل ہے۔ ان سزاوں سے ووٹرز کو یہ تاثر ملنا فطری عمل تھا کہ پی ٹی آئی کو حکومت ملنا ناممکن ہے لیکن انتخابات نے پانسہ ہی پلٹ دیا۔ تمام تر اقدامات کے باوجود ووٹروں نے تاریخ رقم کر دی پاکستان میں مقبولیت کا یہ عالم اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہ ملا تھا۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ یہ قبولیت کی ہی فیوض وبرکات ہیں کہ آج حالات بدل رہے ہیں۔ 
دوسری جانب حکومت اختیار ہونے کے باوجود واویلا کرتی دکھائی دیتی ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ حکومت کی جانب سے اس تاثر کو گہرا کیا جا رہا ہے کہ عدلیہ بانی پی ٹی آئی کو ہر صورت ریلیف دینا چاہ رہی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ماضی قریب میں میاں محمد نواز شریف کو سزا ہونے کے باوجود علاج کے لیے بیرون ملک بھیج دیا گیا تھا۔ سارے قانونی ماہر یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے لیکن ان کی بیماری اتنی اسٹیبلش کی گئی کہ حکومت سمیت تمام طبی ماہرین اور انتظامیہ سرتسلیم خم کیے ہوئے تھی کہ میاں نواز شریف کو بیرون ملک بھجوانے کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ پھر ہم سب نے دیکھا کہ میاں محمد نواز اپنے بھائی میاں شہباز شریف کی شخصی ضمانت پر 50 روپے کے اشٹام پیپر پر بیرون ملک روانہ ہوگئے۔ جاتے وقت جہاز کی سیڑھیوں اور جہاز کے اندر کی تصاویر نے بہت کچھ عیاں کر دیا اور پھر میاں صاحب کے لندن میں مستقل قیام نے واضح کر دیا کہ یہ سارا کچھ ڈیل کے بغیر ممکن نہ تھا۔ پھر جب میاں صاحب کی واپسی کا مرحلہ آیا تو بڑے بڑے قانون دان بھی یہ کہتے سنے گئے کہ میاں صاحب سزا یافتہ ہیں انھیں ایک بار سرنڈر کر کے جیل جانا پڑے گا لیکن ان ہی قانون دانوں نے دیکھا کہ میاں صاحب پروٹوکول کے ساتھ وطن واپس پہنچے۔ ان کے بائیو میٹرک بھی جہاز کے اندر ہوگئے ان کو ضمانت بھی مل گئی اور ماضی میں اربوں روپے خرچ کرکے تیار کیے گئے کیسز ان کی تحقیقات پراسیکیوشن عدالتی سفر اور سزاوں کا کچھ پتہ نہ چلا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے سارے کیس ایک ایک کرکے ختم ہوتے گئے اور رجیم چینج میں سیاستدانوں نے اپنے سارے کیس ختم کروالیے۔
 اب حالات بتا رہے ہیں کہ تبدیلی آچکی ہے۔ بانی پی ٹی آئی جس کے نام لینے پر بھی پابندی ہے ان کے کیس ایک ایک کرکے ختم ہو رہے ہیں۔ ان کے کیسز اور بانی پی ٹی آئی کے کیسز میں فرق یہ ہے کہ عوام نے بانی پی ٹی آئی کے کیسز کو سیاسی کیسز سمجھتے ہوئے انتقامی کارروائی خیال کیا ہے۔ وزیر اعظم سمیت پوری حکومت اور سیاسی اتحادیوں کو پتہ ہے کیا ہونے جا رہا ہے۔ ایک انجانا خوف اتحادیوں یر غالب دکھائی دے رہا ہے۔ وزیراعظم نے 28مئی کو اس کا اظہار بھی کیا کہ عدلیہ میں چند کالی بھیڑیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اس کے اتحادی چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح تحریک انصاف ان کے ساتھ بیٹھ کر ڈائیلاگ کر لے تاکہ ان کا کچھ بھرم رہ جائے کہ بانی پی ٹی آئی کو جو ریلیف مل رہا ہے وہ سیاسی ڈائیلاگ کی بدولت ہے۔ لیکن تحریک انصاف کسی صورت حکومت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں وہ اپنی مقبولیت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہماری قیادت جھکی نہیں۔ لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آج پی ٹی آئی اسی طرح سے ریلیف حاصل کرکے میدان میں آکھڑی ہوتی ہے تو آج کی حکمران جماعتیں پھر محاذ آرائی کی نئی سیاست شروع کر دیں گی۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ساری سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کروادی جائے اور انھیں جمہوری روایات کے مطابق آگے بڑھنے کے لیے آئین میں طے شدہ قواعد وضوابط پر عمل کرنے کا پابند بنا دیا جائے۔ 
حالات تو اس بات کے متقاضی ہیں کہ وسیع پیمانے پر افہام وتفہیم سے معاملات طے کیے جائیں، نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ اداروں کے درمیان بھی مفاہمت ہو۔ ہر ایک کی ازسرنو حدود وقیود طے کی جائیں اور اسے یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی شعبہ اپنی طے شدہ حدود سے تجاوز نہ کرے ورنہ یہ معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے اور ملک وقوم ان لڑائیوں کا خمیازہ بھگتتی رہے گی۔ ذرا تصور کریں جس طرح مقبولیت نے قبولیت کی جانب سفر شروع کر دیا ہے ایسے میں جب بانی پی ٹی آئی ایک پراسس کے ذریعے کیسز میں بری ہو کر یا ضمانت پر باہر آئیں گے تو کیا عالم ہو گا۔ صرف بانی پی ٹی آئی کا استقبال ہی سب کچھ بہا کر لے جاسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...