صلاح الدین خان
s.khan69s.khan@gmail.com
سابق نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے کہا ہے کہ تمباکو نوشی کے خاتمے کیلئے مضبوط تمباکو کنٹرول پالیسی اورصحت عامہ آگاہی مہم جیسی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، سگریٹ کی کم قیمتیں بچوں اور نوجوانوں کی سگریٹ نوشی کی بڑی وجہ ہیں۔ پاکستان تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں سے ہونے والے معاشی نقصانات کو کم کر سکتا ہے، انہوں نے ان خیالات کا اظہار بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سابق نگراں وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے مالی سال 25-2024 کے لیے تمباکو پر ٹیکس میں فوری اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ سگریٹ کی کم قیمتیں بچوں اور نوجوانوں کی سگریٹ نوشی شروع کرنے کی بڑی وجہ ہیں۔تمباکو نوشی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور اموات کے باعث ہر سال ملکی سطح پر مالی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ تمباکو کے استعمال کو روکنے سے صحت کی دیکھ بھال کے نظام پرپڑنے والے بوجھ کو ممکنہ طور پر کم کیا جا سکتا ہے ۔
کمپین فار ٹوبیکو فری کڈز کے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد نے بتایا کہ تمباکو پر حالیہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے متعلق اصلاحات سے ریونیو وصولی کے حوالے سے امید افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔جولائی 2023 سے جنوری 2024 تک کی وصولیاں 122 ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہیں،جو کہ پورے سال کے تخمینوں کے ساتھ دو سو ارب روپے سے زیادہ ہے اور پچھلے برسوں کے مقابلے میں اس میںکافی اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآںان اصلاحات سے مالی سال 24-2023 کے لیے سگریٹ پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی مد میں 60 ارب روپے اضافی حاصل ہونے کی توقع ہے۔ ایف ای ڈی اور جی ایس ٹی کے مشترکہ اثرات کا تخمینہ لگ بھگ 88 ارب روپے ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریبا 49 فیصد کی غیر معمولی نمو کو ظاہر کرتا ہے۔جس سے محصولات میں اضافہ اور صحت عامہ کی حفاظت کے ذریعے حکومت اور پاکستان کے عوام دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مطیع الرحمان، ڈین الائیڈ ہیلتھ کیئر سائنسز، پھیپھڑوں کے امراض اور تمباکو کنٹرول، ہیلتھ سروسز اکیڈمی نے بتایا کہ تمباکو سے متعلقہ بیماریاں جنہیں غیر متعدی امراض بھی کہا جاتا ہے جیسے کینسر، ذیابیطس اور دل کی بیماریاں سالانہ 160,000 سے زیادہ اموات کا باعث بنتی ہیں اور طویل مدتی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ تقریب سے اپنے خطاب میں اسپارک کے پروگرام مینیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے کہا کہ پاکستان کے بچوں کو تمباکو کی صنعت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ "تمباکو نوشی کے متبادل" کو بطور گاہک سامنے لایا جا سکے۔ 6 سے 15 سال کی عمر کے تقریبا 1200 پاکستانی بچے روزانہ سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں۔ڈاکٹر خلیل ڈوگر نے مزید کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے بچوں اور نوجوانوں کو ایسی صنعت سے بچانے کے لیے متحد ہونا چاہیے جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ ایک ایسا قدم ہے جس پر باقاعدگی سے عمل درآمد ہونا چاہیے تاکہ نوجوان نسل کو تمباکو جیسی لعنت سے دور رکھا جا سکے۔
حکومت بجلی گیس کے بجائے سیگریٹ ٹیکس میں 30 فیصد اضافہ کرے ۔ملک عمران احمد، سی ٹی ایف کے کے کنٹری سربراہ، نے سگریٹ نوشی کو روکنے کے لیے سگریٹ پر ٹیکسوں میں اضافے کے اہم کردار پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ سگریٹ کے ٹیکسوں میں سالانہ اضافہ کے ذریعے، پالیسی ساز سگریٹ کو وقت کے ساتھ ساتھ کم سستی بنا کر تمباکو کے استعمال کو مؤثر طریقے سے کم کر سکتے ہیں۔ یہ قدم تمباکو نوشی سے متعلقہ بیماریوں کو کم کرکے اور صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کو کم کرنے میں بھی مدد گار ہوگا جو کہ 615.07 بلین روپے (3.85 بلین ا ڈالربنتا ہے۔اس وقت تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں اور اموات کے ساتھ ساتھ تین بنیادی غیر متعدی بیماریوں سے وابستہ مجموعی سالانہ اقتصادی اخراجات پاکستان کے جی ڈی پی کا بالترتیب 1.6% اور 1.15% ہیں۔یہ تشویشناک رجحان پاکستان کی جی ڈی پی پر پڑنے والے دبا کو کم کرنے کے لیے سالانہ سگریٹ ٹیکس میں اضافے کی فوری ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ڈاکٹر خلیل نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے عائد مالی بوجھ پسماندہ کمیونٹیز کو متاثر کرتا ہے،اور سماجی اقتصادی تفاوت کو بڑھاتا ہے۔سماجی تنظیم پناہ کے جنرل سیکر ٹری ثنا اللہ گھمن نے کہا کہ سگریٹ پر اضافی ٹیکس لگانا محض ایک مالیاتی پالیسی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ضرورت ہے۔ محدود آمدنی والے نوجوان افراد کے لیے سگریٹ کو کم قابل استطاعت بنا کر، پالیسی ساز اس لت میں خلل ڈال سکتے ہیں اور تمباکو نوشی سے متعلقہ بیماریوں کے آغاز کو روک سکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سگریٹ کے بڑھے ہوئے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اورتمباکو کنٹرول پروگراموں کو نافذ کرنے کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہاتمباکو نوشی کا عالمی دن دنیا بھر کے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کررہا ہے، جو حکومتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ انہیں تمباکو کی مارکیٹنگ کے شکاری ہتھکنڈوں سے بچائیں۔ یہ صنعت نوجوانوں کو زندگی بھر کے منافع کے لیے نشانہ بناتی ہے، جس سے نشے کی نئی لہر پیدا ہوتی ہے۔ بچے تمام خطوں میں بالغوں سے زیادہ شرح پر ای سگریٹ استعمال کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر 13-15 سال کی عمر کے 37 ملین نوجوان تمباکو کا استعمال کرتے ہیں۔