فارما سیکٹر کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈریپ ہے

Jun 05, 2024

عترت جعفری
سینئر ممبر بورڈ اف انویسٹمنٹ کے جے کے ،سابق نائب صدر راولپنڈی چیمبر ٓاف کامرس  چودھری پرویز احمد وڑائچ فارماسوٹیکل کے مینوفیکچرر،ادویات کے برآمد کنندہ بھی ہیں اور  معیشت کے حوالے سے پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔آپ حکومت آزاد کشمیر کے مشیر بھی رہے ہیںاور ان دنوں آزاد کشمیر میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے انہیں خصوصی طور پر سرمایہ کاری بورڈ کا ممبربھی  تعینات کیا ہے۔ بجٹ کی آمد آمد ہے اس تناظر میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے معاشی امور کے بارے میں ان سے کی گئی گفتگو کا احوال ذیل کی سطور میں دیا جا رہا ہے۔ بجٹ  2024-25   کے تناظر میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں چودھری  پرویز احمد وڑائچ نے کہا ایف بی آر کی ریونیو جمع کرنے کی کارکردگی گزشتہ دو سال میں بہت اچھی رہی ہے اور ریونیو میں کافی اضافہ کیا گیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کا  آئندہ بجٹ  ریلیف کے اقدامات پر مبنی ہونا چاہیے۔ ریلیف کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ گزشتہ دو تین سال کے اندر بجلی اور گیس کے نرخوں  میں بہت اضافہ ہوا ہے، حکومت کا بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے بجلی گیس اور پیٹرول کے نرخوں میں کمی کر  کرنا چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ سعودی عرب قطر چین اور دوسرے ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کے منصوبوں پر کام کرنا چاہیے۔ ملک میں انفراسٹرکچر کی ترقی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ  اس  بنیادی کام کے بغیر کوئی ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا، دنیا کے بیشتر ممالک نے انڈسٹریل اسٹیٹس قائم کیں اور وہاں بنیادی ا نفرا سٹرکچر دیا، ملک کے اندر بیوروکریٹک رکاوٹیںہیں ۔یہ بہت بڑا مسئلہ پیدا کرتی ہیں، سرمایہ کار بجلی گیس کے نرخوں سے اتنا پریشان نہیں ہوتا جتنا بیوروکریٹک رکاوٹوں سے پریشان ہوتا ہے، ایس آئی ایف سی کا فورم بنا ہے۔اس کی بنیادی ذمہ داری یہی بنتی ہے کہ ہر سطح پر ون ونڈو آپریشن کا انتظام کر دیا جائے۔ فائلوں پر فیصلے دنوں میں نہیں گھنٹوں میں ہونا چاہیے، یعنی ماحول بنانے کی ضرورت ہے، اور ساز گار ماحول  موجود نہ ہو تو بے شک دس کمیٹیاں بنا  لیں ، بڑی سے بڑی پالیسیاں ترتیب دے لیں، ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ اصول آزاد کشمیر پر بھی لاگو ہوتا ہے وہاں بھی ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، ایف بی آر کی تاجر دوست اسکیم کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں پرویز احمد نے کہاکہ اس سکیم کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں اگر 25 فیصد لوگ اس میں شامل ہو جائیں تو اسے کامیابی سمجھا جائے گا، فارماسوٹیکل انڈسٹری کو درپیش مسائل اور بجٹ میں اس کے لیے اقدامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ملک میں ادویات کے سیکٹر کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈریپ  ہے ،یہ ادارہ کسی صورت میں اپنے کنٹرول کو ختم نہیں کرنا چاہتا، پرائسنگ  کے ا مور میں تاخیر برتی جاتی ہے جس سے کمپنیوں کو نقصان ہوتا ہے، ادویات کے ہر شعبہ کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے ، ،  ادویات  کے  سیکٹر میں خام مال کا بہت بڑا مسئلہ ہے، ڈالر کے اوپر نیچے  ہوتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے  سپلائی کا تسلسل برقرا رکھنا بہت مشکل ہو چکا ہے اور ان کی قیمتوں میں کا ایشو موجود ہے  ،مینوفیکچرز کے لیے صورتحال کافی مخدوش ہے، ڈریپ کے پاس صرف کوالٹی کنٹرول ہونی چاہیے، ادویات  کی پروڈکشن اور پرائسنگ  پر اس کا کنٹرول نہیں ہونا چاہیے،، مینوفیکچرنگ اور  پروڈکشن کے سیکٹر میں حکومت نے گزشتہ کئی دہائیوں سے کام نہیں کیا ہے، ادویات کے سیکٹر کو اپ گریڈ کرنے کے لیے نئے مشنری اور الات کی ضرورت پڑتی ہے، ان کی درامد بہت مہنگی ہو چکی ہے، ادویات کے سیکٹر میں نئے ٹیکنالوجی ہونا چاہیے اور حکومت کو ایسے اقدامات کرنا چاہیے کہ ملک سے ٹیکنالوجی کی درآمد میں آسانی پیدا ہو اور ملٹی پل  ٹیکسیشن میں کمی کی جائے، انرجی کی کاسٹ کی وجہ سے کاروبار کو چلانا پہلے ہی مشکل ہو چکا ہے، پالیسیوں سے ڈیل کرنے والی وزارتوں کے نمائندوں کو چاہیے کہ وہ  انڈسٹریز کے نمائندوں کے ساتھ اجلاس کریں  ہر سیکٹر کے لیے پالیسی کو حتمی شکل دے، غیر ملکی سرمایہ کاری کی ایک اپنی اہمیت ہے، اس سے بیرون ملک بیٹھے ہوئے ہیں سرمایہ کاروں کو حوصلہ ملتا ہے، انڈسٹریل  پالیسی کو  غیر ملکی سرمایہ کاری کو پرکشش بنانے کے اقدامات کیے جائیں اور ترغیبات فراہم کی جائیں، اس تاثر کی نفی کرنی ضروری ہے کہ کاروبار ، صنعت کاری اور مینوفیکچرنگ کرنا مشکل ہے، معیشت کے لئے  بڑی رکاوٹ گیس اور بجلی کے کنیکشنز کی عدم فراہمی ہے ۔ انرجی اگر تسلسل سے دستیاب نہ ہو توملک کے معاشی پہیہ کو چلانا ممکن نہیں ہے، افغانستان کی مارکیٹ ہمارے ہاتھ سے نکل رہی ہے،  جبکہ افغان حکومت سرمایہ کاری کے منصوبوں کو بہت توجہ دے رہی ہے اور اس نے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں سے کہا ہے کہ وہ ان کے صنعتی علاقوں میں فیکٹریاں لگائیں جس کے لیے ہر طرح کی انرجی سپلائی کی جائے گی، زراعت  کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ، زراعت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے جب تک اس کی ہر فصل پر ا نفرادی توجہ نہیں دی جائے گی مسائل موجود رہیں گے، اس ملک میں گندم کی صورتحال کو دیکھ رہے ہیں، حالات  سے  پہلو تہی کرتے  ہوئے میں بیرون ملک سے گندم منگوئی گئی ،اس کی انڈر ڈیوائسنگ ہوئی، اور اس کی وجہ سے ملک کے کاشت کار بہت پریشان ہیں، اس طرح کی لاپرواہی کے اثرات  آئندہ فصل پر  ہوں گے، پرویز احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ ان کو زراعت  کی ان پٹ کاسٹ میں کمی ہونا چاہیے کھاد کے نرخ  کم کیے جائیں، اور پانی کے نئے ذخائر بنانے کی طرف توجہ دی جائے، مومیاتی  تبدیلی نے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بہت خطرات پیدا کر دیے ہیں، اس حوالے سے جامع سٹڈی کروائی جائے اوراس کے مطابق  اقدامات کیے جائیں۔

مزیدخبریں