قیامت کی نشانی، خراب ہاضمہ اور گورنر سندھ کا اعلان!!!!

دیکھیں روزانہ ہماری سیاست میں ایسے واقعات ہوتے ہیں ایسے بیانات سننے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ سنجیدہ گفتگو ہی رہتی ہے۔ ویسے تو روزانہ بہت سے بیانات ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر، پڑھ کر یا پھر سن کر پہلے غصہ آتا ہے، تکلیف ہوتی ہے اور پھر ہنسی روکنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ کیفیت اس لیے ہوتی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے سادہ لوح اور معصوم لوگوں کے جذبات سے اس انداز میں کھیلا ہے اور سیاست کو اتنا آلودہ کر دیا ہے کہ آج یہ سیاسی نفرت ہر چیز پر غالب نظر آتی ہے۔ یعنی مزاح بھی سیاسی مواد پر ہو رہا ہے، کھیل میں بھی سیاست ہے، کاروبار میں بھی سیاسی نفرت ہے، ہم ہر چیز کو سیاسی پہلو سے ہی دیکھنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ بیماری اتنی عام ہوئی ہے کہ لوگوں نے سیاسی وابستگی کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے ملنا بھی چھوڑ دیا ہے اور یہ سلسلہ مرحلہ وار ہوا ہے۔ پہلے لوگوں نے سیاسی شدت پسندی میں ایک دوسرے سے ملنا کم کیا پھر ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے کیا یہ اچھی چیز ہے، ہرگز نہیں آپ قطعا یہ نہیں کر سکتے، آپ مختلف سیاسی سوچ کی بنیاد پر کم از کم اپنے لوگوں سے ملنا جلنا تو نہیں چھوڑ سکتے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ ہوا ہے اور گذشتہ چند برسوں کے دوران بہت شدت سے ہوا ہے۔ یہ تقسیم تحمل مزاجی، باہمی احترام، رواداری اور ایک دوسرے کی رائے کو فکری اختلاف تک محدود رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ بات ہو رہی تھی مزاح کی تو کبھی کبھی سیاسی قیادت کے بیانات میں مزاح کے پہلو کو ضرور اجاگر کرنا چاہیے۔ آج بہت عرصے بعد یہ کوشش کر رہا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ لوگوں کو یہ کاوش ہمیشہ کی طرح پسند آئے گی۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ "اگر مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھے تو یہ قیامت کی نشانی ہو گی۔" کیا بات ہے کنڈی صاحب، ہم نے تو آج تک قیامت کی جو نشانیاں پڑھی ہیں یا علما نے بتائی ہیں ان میں تو کبھی یہ نشانی نہیں ملی، اب یہ وضاحت آپ خود فرمائیں کہ پاکستان میں کوئی سیاسی قیامت تو برپا نہیں ہو رہی، یا آپ کے پاس کوئی بہت پہنچے ہوئے بزرگ یا علامہ صاحب موجود ہیں جن کے پاس قیامت کی کچھ اور نشانیاں موجود ہیں جو کہ آج تک ہم سن نہیں سکے۔ اگر ایسا ہے تو پھر گورنر صاحب کو امت مسلمہ پر رحم کرتے ہوئے ان علامہ صاحب یا بابا جی سے ضرور ملاقات کروانی چاہیے تاکہ لوگ ان کے علم سے مستفید ہو سکیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا قیامت کی یہ نشانی جامعہ پیپلز پارٹی کی تخلیق تو نہیں ہے۔ ویسے گورنر خیبر پختونخوا یہ تو بتائیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جیسے پشاور میں عید کا چاند پہلے نظر آ جاتا ہے گورنر خیبر پختونخوا بنتے ہی انہیں کہیں ایسی نشانیاں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں جو آج تک کوئی مذہبی شخصیت دیکھ نہیں سکی۔ سو یہ بتانا اب ان کا کام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معزز گورنر صاحب یہ بھی بتا دیں کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن کا پی ٹی آئی سے اتحاد قیامت کی نشانی ہے تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد کس چیز کی نشاندہی کرتا ہے، کیا اس اتحاد کا جائزہ لینے کے لیے کوئی خاص عینک تو نہیں بنوانا پڑے گی۔ گورنر صاحب کہتے ہیں کہ "پارٹی نے جو ٹاسک دیا ہے وہ پورا کروں گا، بات چیت ان سے ہونی چاہیے جو آئین کو مانتے ہیں۔"ان کا پہلا ٹاسک تو سمجھ میں آ گیا ہے اور وہ یہ کہ قیامت کی چھپی نشانیاں ڈھونڈنا ہیں جس میں وہ شاید ابتدائی ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ 
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ "حکومت نے بجٹ میں تعلیم کیلئے تین ارب روپے رکھے تھے خرچ ایک روپیہ نہیں کیا ، ہم تو انتظار کر رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن اور علی امین گنڈا پور ایک ٹرک پر عوام سے خطاب کریں۔" یعنی فیصل کریم کنڈی کے نزدیک ملک میں سیاسی جماعتیں اتحاد کی طرف بڑھ رہی ہیں لیکن اس بیان سے تو انہوں نے اتحاد کے خاتمے کا نظریہ پیش کیا ہے۔ کیونکہ نہ مولانا فضل الرحمٰن مائیک چھوڑنا پسند کریں گے نہ ہی علی امین گنڈا پور پھر اس بات پر بھی ناراضی ہو سکتی ہے کہ پہلے تقریر کون کرے گا۔ یعنی گورنر خیبر پختونخوا چاہتے کہ قیامت کی یہ نشانی ابھی پوری نہ ہو اور لوگ پاکستان کے لوگ اس سیاسی قیامت سے پیدا ہونے والی تباہی سے بچ جائیں لیکن جو اتحاد مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے کیا ہے اگر اس اتحاد پر کوئی فتوی مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے آیا تو گورنر خیبر پختونخوا اور ان کے موجودہ سیاسی دوستوں کے لیے بہت مشکل ہو جائے گی۔
ایک اور بہت ہی مزے کی خبر ہے اور وہ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ کا بیان ہے۔ وزیر موصوف فرماتے ہیں "سرمایہ کاری روکنے کے لیے ٹوئٹ کرنے والے اپنے ٹوئٹ سے انکار ی ہیں۔ ہماری حکومت کے حلف اٹھانے کے بعد سے اچھے معاشی اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں، عالمی جریدے بھی ہماری کارکردگی کی بات کررہے ہیں جب کہ اس سے قبل ڈیفالٹ کی بات ہوتی تھی۔  ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والوں کو مضبوط معیشت ہضم نہیں ہو رہی،سرمایہ کاری روکنے کے لیے ٹوئٹ کرنے والے اپنے ٹوئٹ سے انکار ی ہیں اور پوری پی ٹی آئی میں قول و فعل کا تضاد ہے۔"
جناب وزیر صاحب حکومت آپ کی ہے، سارے اختیارات آپ کے پاس ہیں، ساری طاقت آپ کی ہے، سارے ڈاکٹرز آپ کی دسترس میں ہیں جس کا نظام انہضام خراب ہے کسی اچھے ڈاکٹر سے ان کا علاج کروائیں اس کا یہ فائدہ بھی ہو گا کہ سیاسی حریفوں کا ہاضمہ ٹھیک ہونے سے سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کا ماحول بھی ٹھیک ہو جائے۔ اس طرح حکومتی بنچوں پر بھی کچھ لوگ ضرور ملیں گے جنہیں ہاضمے کی شکایت رہتی ہے اس بہانے اپنے لوگوں کا علاج بھی ہو جائے گا۔ 
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے اعلان کیا ہے کہ "جو بچے یتیم ہیں یا ان کے سر پرست ڈکیتی کی واردات کا شکار ہو گئے ہیں ان کے لیے گورنر ہاؤس کی جانب سے بکرا دیا جائے گا۔ شہر میں جو بچے یتیم ہیں یا ان کے سر پرست ڈکیتی کی واردات کا شکار ہوگئے ہیں، ان کے لیے گورنر ہاؤس کی جانب سے بکرا دیا جائے گا، بچوں کو بکرے دینے کا سلسلہ عید کے 3 دن پہلے شروع کیا جائے گا جب کہ اس بار بھی گورنر ہاؤس میں عید کے تینوں دن سو اونٹ قربان کیے جائیں گے، ان کا گوشت مستحق اور یتیموں میں بانٹا جائے گا۔" 
جناب گورنر صاحب کراچی کے لوگوں کے ساتھ سارا سال قربانی کے بکروں جیسا سلوک ہی کیا جاتا ہے۔ اگر اس سلوک میں بہتری لائیں تو گورنر ہاؤس کے بجائے ہر گھر خود قربانی کے قابل ہو جائے گا۔
آخر میں سلیم کوثر کا کلام
اْسے کہنا کبھی ملنے چلا آئے
ہمارے پاوں میں جو راستہ تھا
راستے میں پیڑ تھے
پیڑوں پہ جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا کرتی تھیں
اب وہ اْڑتے اْڑتے تھک گء ہیں
وہ گھنی شاخیں، جو ہم پہ سایا کرتی تھیں
وہ سب مْرجھا گء ہیں
تم اْسے کہنا
کبھی ملنے چلا آئے
لبوں پر لفظ ہیں
لفظوں میں کوء داستاں، قصہ، کہانی
جو اْسے اکثر سناتے تھے
کسے جا کرسنائیں گے ؟
بتائیں گے
کہ ہم محرابِ ابرو میں ستارے ٹانکنے والے
درِ لب، بوسہء اظہار کی دستک سے اکثر کھولنے والے
کبھی بکھری ہوء زلفوں میں ہم
مہتاب کے گجرے بنا کر باندھنے والے
چراغ اور آئینے کے درمیاں
کب سے سرِ ساحل کھڑے موجوں کو تکتے ہیں
اْسے کہنا
اْسے ہم یاد کرتے ہیں
اْسے کہنا، ہم آ کر خود اْسے ملتے
مگر مقتل، بدلتے موسموں کے خون میں رنگین ہے
اور ہم
قطار اندر قطار ایسے بہت سے موسموں کے درمیان
تنہا کھڑے ہیں
جانے کب اپنا بلاوہ ہو
کہ ہم میں آج بھی
اک عمر کی وارفتگی اور وحشتوں کا رقص جاری ہے
وہ بازی، جو بساطِ جاں پہ کھیلی تھی
ابھی ہم نے نہ جیتی ہے نہ ہاری ہے
اْسے کہنا کبھی ملنے چلا آئے
کہ اب کی بار شاید
اپنی باری ہے
اْسے کہنا کبھی ملنے چلا آئے۔۔۔۔!!!

ای پیپر دی نیشن