پاکستان پیپلز پارٹی مراد سعید گروپ کے رہنما چودھری عمران احسن نے رات ایک ٹی وی پر بتایا کہ وہ اپنے قائد اعلیٰ کو جلد جیل سے باہر آتا نہیں دیکھ رہے۔ چودھری عمران احسن نے قائد اعلیٰ یعنی سپریم لیڈر کو مشورہ دیا کہ انہیں جلد رہائی چاہیے تو وہ آصف علی زرداری کے در پر حاضری دیں۔
یعنی عراق جا کر تریاق لانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ آصف علی زرداری کا موجودہ در دولت اسلام آباد کا ایوان صدر ہے۔ سپریم لیڈر خود تو جانے سے رہے کہ جیل میں ہیں، ان کی طرف سے کون جائے گا؟۔ مراد سعید بھی نہیں جا سکتے کہ وہ پشاور کی کسی محفوظ ہاتھوں کی پناہ میں ہیں۔ زرتاج گل جا سکتی ہیں لیکن وہ جائیں گی نہیں کہ ’’لجّا‘‘ آئے گی۔ خود چودھری عمران احسن بھی جا سکتے ہیں، وہ کیوں نہیں چلے جاتے۔
کچھ کا کہنا ہے کہ کوئی زرداری کے دردولت پر چلا جائے تو بھی کچھ نہیں ہو گا اور چودھری عمران احسن کو بھی اس بات کا پتہ ہے۔ یہ بیان دے کر دراصل وہ آصف زرداری کی نظروں میں کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ کچھ کا کہنا ہے اور ہمارا کہنا ہے کہ کھویا ہوا مقام اب واپس نہیں ملنے والا۔ چودھری عمران احسن بدستور مراد سعید گروپ کی سربراہی سنبھالے رکھیں۔ تھوڑی بہت عزت سادات بچی رہے تو بھی مقام شکر ہے۔
______
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ عقل کل نہیں ہوتی۔ اس سے زیادہ عقل پارلیمنٹ میں ہوتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا پیش کردہ فارمولا کوئی نئی دریافت نہیں ہے۔ پوری دنیا میں پارلیمنٹ ملک بھر کے عوام کی نمائندہ، حاکمیت اعلیٰ اور قانون سازی کا ادارہ مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ عالمگیر سچائی تبدیل کر دی گئی ہے۔ ثاقب نثار سے عمر عطا بندیال تک قانون سازی، آئین میں ترامیم کی ذمہ داریاں عدالت نے سنبھالے رکھیں۔ پارلیمنٹ نے جب بھی قانون سازی کی، سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا اور اس کی جگہ خود قانون سازی کی۔ آئین ازسرنو تحریر کیا، صرف یہی نہیں، حومت کی ذمہ داریاں بھی عدلیہ نے سنبھال لیں۔ کون سی سڑک بنے گی، کون سا پل تعمیر ہو گا، کون سا نیا ہسپتال بنے گا، کن طلبہ کو موٹر سائیکل اور کمپیوٹر دئیے جائیں گے کہ یہ سارے اختیارات عدالتوں نے حکومت سے چھین لئے چنانچہ دھڑا دھڑ زیر تعمیر سڑکیں بند ہونے لگیں۔
لاہور میں اورنج ٹرین کی تعمیر روک دی گئی، ایک بڑے لیور اینڈ کڈنی ٹرانسپلانٹ ہسپتال پر تو نثار برانڈ کا بلڈوزر ہی پھیر دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ اختیارات کی منتقلی کا عمل اتنا تیز ہو گیا کہ بعض لوگوں کو اس بات کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا کہ کل کلاں چک بھچر 614 کا سیشن جج اٹھ کر قومی اسمبلی ہی نہ توڑ دے یا وزیر اعظم کو برطرف کر کے نئے وزیر اعظم کی تقرری بھی کر ڈالے۔
بہرحال، اب چیف جسٹس نے درست فارمولا یاد دلا دیا ہے تو امید ہے، کسی سیشن جج، مجسٹریٹ کا ارادہ قومی اسمبلی توڑنے یا نئے وزیر اعظم کی تقرری کا ہے بھی تو اب باز رہے گا۔
بندیالی دور میں ایک نیا کام بھی ہوا۔ جج حضرات ججی کی کرسی پر بیٹھ کر ایک سیاسی گروہ کے وکیل بن گئے، جن لوگوں نے وکالت نامے جمع کرائے تھے، وہ خاموش کھڑے رہتے، جج حضرات ان کی طرف سے دلائل دیتے، پھر اپنے ہی دئیے گئے دلائل کی روشنی میں فیصلہ مذکورہ پارٹی کے حق میں کر دیتے۔
امید ہے ، اس طرف بھی صحیح فارمولہ یاد دلائے جانے کی ضرورت کو پورا کر دیا جائے گا کہ بندیال کو گئے کئی مہینے ہو چکے۔
______
سرکاری رپورٹ ہے کہ مہنگائی کی شرح میں خاصی کمی ہوئی ہے۔ ممکن ہے رپورٹ میں کچھ مبالغہ ہو اور کچھ ہیر پھیر بھی۔ لیکن مل ملا کر مہنگائی کم تو ہوئی ہے اور یہ کمی اگر بہت زیادہ نہیں تب بھی اتنی تو ہے کہ نظر آ رہی ہے۔
باوجود اس تبدیلی کے غریب عوام کی حالت بدستور ابتر ہے۔ کئی برسوں سے ہر روز خودکشیاں اسی غربت کے ہاتھوں ہو رہی ہیں۔ دس بارہ برس پہلے مہینے ڈیڑھ میں ایک آدھ خودکشی کی خبر آتی تھی، اب روز آتی ہے اور ایک نہیں کئی کئی خودکشیاں ہو رہی ہیں۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق بیروزگاری میں 7 فیصد کمی ہوئی اور وہ 57 فیصد سے کم ہو کر 50 فیصد رہ گئی ہے۔ نواز شریف کی گزشتہ حکومت میں بیروزگاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی اور خط غربت سے نیچے رہنے والوں کی تعداد بھی کم ہو کر 20 فیصد کے لگ بھگ رہ گئی تھی۔ پھر آسمان نے منفی کروٹ لی۔ شکریہ شریف صاحب، اس کے بعد باجوہ خان صاحب آئے، ہمراہ چشمہ فیض کے۔ انہوں نے ملکی معیشت کا دھڑن تختہ پہلے خود کیا، پھر گریٹ نیازی خان کے ہاتھوں کروایا اور خط غربت سے نیچے لڑھکنے والوں کی تعداد 60 فیصد تک جا پہنچی۔
اب جو بہتری آئی ہے وہ حافظ عاصم منیر اور ان کی عسکری ٹیم کی رضا کارانہ خدمات کا نتیجہ ہے۔ رضاکارانہ اس لئے کہ وفاقی حکومت نے کام کرنے سے ہاتھ کھڑے کر دئیے اور غیر ملکی دوروں پر اپنا سارا وقت صرف کیا تاکہ دل بہلتا رہے۔ وزیر اعظم کل ہی دل بہلانے کو چین تشریف لے گئے ہیں۔ رب سے دعا ہے کہ پھر کسی شکریہ شریف ، چشمہ فیض اور باجوے خان کی نظر نہ لگے۔
______
ایک سراسر غلط قانون دنیا بھر کے ملکوں میں نافذ ہے جس کے تحت سرکاری راز فاش کرنے کو جرم مانا جاتا ہے اور سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ انصافی اصولوں کے خلاف ہے۔ اب ایک حالیہ فیصلے کی روسے پاکستان میں سرکاری راز فاش کرنے کی کھلی اجازت دے دی گئی ہے اور انصاف کا بول اچھی طرح سے بالا کر دیا گیا ہے۔ امید ہے دوسرے ملک، بالخصوص امریکہ، روس، چین، بھارت وغیرہ بھی ہماری پیروی کریں گے اور سرکاری راز فاش نہ کرنے کا قانون ختم کر دیں گے۔ یقین مانئے ، اس سے دنیا بھر میں امن اور شانتی کا دور دورہ ہو جائے گا۔
بیرسٹر عمران احسن کا نیا مشن
Jun 05, 2024