اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق ایشو کی وجہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا ہے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اصل معاملہ ایک سیاسی جماعت کے انٹرا پارٹی انتخابات کا تھا۔ انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے سارے مسئلے حل ہو جاتے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا ہے کہ آزاد امیدوار سنی اتحادکونسل میں نہ جاتے تو تحریک انصاف کہہ سکتی تھی کہ مخصوص نشستیں ہمیں دو۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات کا کہا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ پہلے کیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ہدایت کی کہ اپنی یہ بات ایک بار دہرا دیں، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جی اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تنازعہ کی بات کیوں کر رہے ہیں بس کہیں الیکشن نہیں لڑا، فل سٹاپ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں، وقت بچایا جا سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت درست مانتے ہوئے ہی اسے پارلیمانی جماعت تسلیم کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمانی پارٹی اور سیاسی جماعت میں فرق ہوتا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ہر سیاسی جماعت کی پارلیمانی پارٹی الگ سے ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آئین میں سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کو الگ لکھا گیا ہے؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر کیا گیا ہے، جس جماعت کی اسمبلی میں کوئی نشست نہ ہو وہ سیاسی جماعت ہوگی پارلیمانی نہیں، 8فروری کو سنی اتحاد سیاسی جماعت تھی ارکان کی شمولیت کے بعد پارلیمانی جماعت بن گئی، سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کے درمیان ایک تفریق ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آئین اس تفریق کو تسلیم کرتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ جی 63 اے آرٹیکل موجود ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے اور آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کل سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے خلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا عدالت کے سامنے موجود معاملے سے تعلق نہیں، سنی اتحاد کونسل دونوں سیاسی اور پارلیمنٹری پارٹی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ سیاسی جماعت ہونے کے بغیر پارلیمانی پارٹی ہو؟ جو بھی پارٹی اسمبلی میں ہوگی تو پارلیمانی پارٹی ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدوار وہ ہوتا ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس حساب سے تو سنی اتحاد میں پی ٹی آئی کے کامیاب لوگ شامل ہوئے، پارٹی میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہو سکتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمشن نے کس بنیاد پر امیدواروں کو آزاد قرار دیا تھا؟ الیکشن کمشن نے امیدواروں کو خود آزاد تسلیم کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازعہ کی وجہ بنا، سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے اسکے فیصلے ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی قانونی طور پر پارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابی نشان کا مسئلہ خود الیکشن کمشن کا اپنا کھڑا کیا ہوا تھا، الیکشن کمشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیکر اپنے کھڑے کیے گئے مسئلے کا حل نکالا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ ہونے پر سیاسی جماعت کو نشان نہیں ملا، کیا کسی امیدوار نے بلے کے نشان کے لیے رجوع کیا تھا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ الیکشن کمشن کو درخواست دی گئی مسترد ہونے پر آرڈر چیلنج بھی کیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان صرف سیاسی جماعت کی سہولت کے لیے ہے، انتخابی نشان کے بغیر بھی سیاسی جماعت بطور پارٹی الیکشن لڑ سکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر امیدوار اگر بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی امیدوار ہوتا تو یہ سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہوتی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ بلے باز بھی کسی سیاسی جماعت کا نشان تھا جو پی ٹی آئی لینا چاہتی تھی، بلے باز والی جماعت کیساتھ کیا ہوا تھا؟۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بلے باز والی جماعت کے ساتھ انضمام ختم کر دیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہو سکتا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ عدالتی فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو ایسا کہنے کی ضرورت تھی؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کو کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نشان کسی اور کو نہیں مل سکتا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس انتخابی نشان کا نہیں انٹرا پارٹی انتخابات کا تھا، عدالت نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر کہا تھا کوئی ایشو ہوا تو رجوع کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بہت مضبوط توجیہات ہیش کی جا رہی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے کے بعد بلے کے نشان کو ختم کیا گیا تھا یا نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جسٹس منیب کے مطابق بلے کے نشان ختم ہونے کے باجود امیدواران نے پی ٹی آئی امیدواران کے طور پر الیکشن لڑا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ اس وقت سنی اتحاد کونسل کے ممبران ہیں، اب سیٹیں تحریک انصاف کو تو جانی ہی نہیں۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سارے مسئلے بہتر حل ہوتے اگر سپریم کورٹ کی فیصلے کے ساتھ کچھ چیزوں کی وضاحت ہوجاتی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سارے مسئلے بہتر طریقے سے حل ہوجاتے اگر تحریک انصاف پارٹی الیکشن کروا دیتی۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اصل سٹیک ہولڈرز ووٹر ہیں، سب سے اہم حق ووٹ کا ہے۔ ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا۔ تحریک انصاف لگاتار لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کا کہہ رہی تھی۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا ایک وقت میں ہر سیاسی جماعت کو ایسی شکایت تھی۔فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کے سامنے ایشو الیکشن، جمہوریت اور ووٹر کی نمائندگی کا ہے، الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ظاہر کیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے الیکشن کمشن کے مطابق نہیں قانون پر چلنا ہے، الیکشن کمشن کے فیصلے روز ہی عدالت میں چیلنج ہوتے ہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمشن کا فیصلہ چیلنج کیا تھا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمشن کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا گیا یہ حتمی ہوچکا ہے۔ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس میں کہا کہ فیصلہ حتمی ہو چکا ہے تو بحث کا کیا فائدہ؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ سارے مسئلے حل ہوجاتے اگر سپریم کورٹ بلے کے نشان والے فیصلے کی وضاحت کر دیتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر پی ٹی آئی جماعتی انتخابات کروا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا، اس عدالت پر ہر چیز کا ملبہ نہ ڈالیں، پی ٹی آئی نے جمہوری حق سے اپنے لوگوں کو محروم رکھا تھا، اس سیاسی جماعت کے الیکشن میں ووٹرز کی خواہش کی عکاسی کہاں ہوئی؟ پارٹی الیکشن ہوتے تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی ممبران کو ہی ہوتا وہ الیکشن لڑ لیتے، جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری کیجیے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بہت احترام سے اگر سچ سب بولنا شروع کریں تو وہ بہت کڑوا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو بولتا ہوں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ بلے والے فیصلے پر نظرثانی زیر التوا ہے، ساری باتیں یہاں کرنی ہیں تو وہاں کیا کریں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی دشواری یہ ہے کہ آپ خود کو تحریک انصاف امیدوار ظاہر کرنا چاہتے تھے، الیکشن کمیشن نے آپ کو کہا تحریک انصاف کو بلا نہیں ملا تو آپ کو نہیں دے سکتے، خود کو تب آزاد امیدوار ڈیکلیئر کرتے اور بیٹ مانگ لیتے، قانون نے کہا اپنی پارٹی میں انتخابات کروا لیں، قانون ہم نے نہیں آپ نے بنایا، میں آپ کو مشورہ ہی دے سکتا ہوں، پہلے بھی دورانِ سماعت مشورے دیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کم از کم بلے کا نشان مانگتے تو صحیح، ملنا نہ ملنا سپریم کورٹ بعد میں دیکھتی، آپ مختلف پارٹی سے منسلک ہونا چاہ رہے، آپ اب آزاد امیدوار نہیں، الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہمارے پاس چیلنج ہوتے ہیں، خود کو تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کیا تو بطور آزاد امیدوار نہیں، آپ پارٹی کو ٹھکرا کر آ رہے۔ سارا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب پارٹی سربراہ وزیراعظم تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر پی ٹی آئی امیدواروں نے پارٹی تبدیل کی اور پارٹی تبدیل کرنے پر آرٹیکل 63 اے والا فیصلہ موجود ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی سے متعلق ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دلائل آگے بڑھائیں ورنہ آپس میں ہی تنقید ہوتی رہے گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی انتخابات ہوتے تو فائدہ پی ٹی آئی کے لوگوں کا ہوتا، جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری جمہوریت کی بات کریں، عوام کو جماعت میں شامل کرتے ہیں تو ارکان کا حق ہے کہ وہ الیکشن لڑیں، عدالتی فیصلہ آپ کو پسند ہے یا نہیں وہ الگ بات ہے لیکن سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے، ا?پ نے اس بات کو چھیڑا ہے تو پوری بات کریںچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایوان کو نشستوں کی مقرر کردہ تعداد سے کم رکھا جا سکتا ہے؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ ایوان کی مختص تمام نشستیں پوری ہونا لازمی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ متناسب نمائندگی کے نام پر ڈراماٹائز کرنے کی ضرورت نہیں، مخصوص نشستوں پر تو پارٹی سربراہ کی صوابدید ہے چاہے دوستوں کو نواز دے، مخصوص نشستوں میں ووٹرز کا کوئی کردار نہیں ہوتا یہ پارٹی سربراہ مقرر کرتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون کے مطابق لسٹ سیاسی جماعت نے دینی ہوتی سربراہ نے نہیں۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سیاسی جماعت کو مخصوص نشستیں حاصل کی گئی سیٹوں پر ملتی ہیں ووٹوں پر نہیں۔ چیف جسٹس سوال کیا کہ کیا پارٹی میں شمولیت کے لیے جماعت کا اسمبلی میں ہونا لازمی نہیں؟ وکیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں اسمبلی میں حاصل کی گئی سیٹوں پر الاٹ ہوتی ہیں، قانون میں نشستیں حاصل کرنے کا ذکر ہے جیتنے کا نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوالات اٹھائے کہ ایوان میں زیادہ آزاد میدوار ہوں اور دو سیاسی جماعتیں ہوں تو کیا ہوگا؟ کیا ساری مخصوص نشستیں دو سیاسی جماعتوں کو جائیں گی؟ یا ان جماعتوں کو صرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟ پہلے اس تنازعے کو حل کریں اس کا کیا جواب ہے؟ دو سیاسی جماعتیں اپنی جیتی نشستوں کے تناسب سے ہی مخصوص نشستیں لیں گی، باقی نشستوں کا کیا ہوگا بعد میں دیکھا جائے گا، یہ نہیں ہو سکتا کہ ان ہی سیاسی جماعتوں کو اضافی نشستیں بھی بانٹ دیں، ایسا کرنے سے پھر متناسب نمائندگی کا اصول کہاں جائے گا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئین سے بتائیں یہ کہاں ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ تو ایسے ہی ہے کہا جائے شوہر شادی شدہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو پی ٹی آئی کا کیس اچھا تھا، پی ٹی آئی جا کر کہہ سکتی تھی یہ ہمارے لوگ ہیں نشستیں ہمیں دو، کس دلیل پر پی ٹی آئی کا یہ موقف مسترد ہوتا، یہ لوگ سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟ یا تو آپ کہیں ایوان کو مکمل نہیں کرنا تو بات ختم ہے، 336 کا نمبر پورا ہونا تو پھر نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتے۔جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت نشستیں نہ جیتے سب آزاد آئیں تو کیا ہوگا؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ ایسی صورت میں مخصوص نشستیں کسی کو نہیں ملیں گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں کو اپنی جیتی سیٹوں کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر پی ٹی آئی والے سنی اتحاد میں شامل نہ ہوتے تو کیا مخصوص نشستیں خالی رہتی؟ آپ خود کہہ چکے ہیں کہ ایوان میں کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، سیاسی جماعتوں کو کس تناسب سے نشستیں ملیں گی یہ آئین میں کہاں لکھا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ حاصل کی گئی جنرل نشستوں سے ہی سیاسی جماعت کا تناسب نکلے گا۔فیصل صدیقی نے کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی میں سات ارکان آزاد ہیں، سات سیٹوں پر مخصوص نشست نہیں بنتی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیاسی جماعت اگر رجسٹرڈ ہو تو اس میں شمولیت کے لیے پارلیمان میں ہونا کیسے لازمی ہوگیا؟ الیکشن نہ بھی لڑا ہو تو سیاسی جماعت تو موجود ہے ہی۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا منشور ایک تو نہیں ناں؟ پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعت کی ایک اہمیت ہوتی ہے، آئین کو دیکھنا ہے تو پورا دیکھیں مکس اینڈ میچ نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس وقت سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے نہیں کہہ رہے کہ ہم اس کے منشور سے متفق نہیں، کسی رجسٹر سیاسی جماعت کے لیے الیکشن لڑا ہونا کیوں ضروری ہے آزاد امیدواروں کی شمولیت کے لیے؟ مجھے اس کے پیچھے کیا دانش ہے وہ سمجھ نہیں آتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مجھ سے پوچھیں تو اس کے پیچھے معقول وجہ موجود ہے، ایک جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لیتی تو سیاسی عمل کو رد کرتی ہے، برا نہ مانیے گا مگر آپ کی جماعت کا میں نے سنا ہی نہیں ہوا تھا، ہو سکتا ہے باقی لوگوں نے سنا ہو، لوگوں کے سامنے آو تو سہی ان کی نمائندگی تو کرو۔ بعد ازاں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر عدالت نے کیس کی سماعت 24جون تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 24 اور 25جون کو صرف یہی کیس سنیں گے، آفس کو کہہ دیتے ہیں 24 اور 25جون کو صرف یہی کیس سنیں گے، باقی کیسز نہ لگائے جائیں۔
پی ٹی آئی پارٹی الیکشن کرا دیتی تو سارے مسائل بہتر طریقے سے حل ہو جاتے: چیف جسٹس
Jun 05, 2024