یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دبئی میں قیام پذیر تھا اور ایک قومی روزنامے کی امارات میں نمائندگی کرتا تھا ۔ آج کے مقابلے میں ان دنوں پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہاں بسلسلہ روز گار مقیم تھی اور یوں پاکستانی اخبار بڑی تعداد میں یہاں فروخت ہوتے تھے ۔ میں اکثر و بیشتر امارات میں مقیم پاکستانیوں کی سماجی ، ثقافتی اور قومی سرگرمیوں کی تسلسل کے ساتھ بھرپور کوریج کرتا تھا۔ علاوہ ازیں پاکستانی شاعروں پر مبنی مشاعرے ، پاکستانی فنکاروں سے مرصع ورائٹی پروگرام اور قومی و ملکی تقاریب کا انعقاد میرا محبوب مشغلہ تھا جس نے مجھے کافی متحرک رکھا ہوا تھا ۔ علاوہ ازیں جب بھی کبھی کوئی پاکستانی ممتاز شخصیت دبئی آتی تھی تو اس کے اعزاز میں شایانِ شان استقبالیے کا اہتمام کرنا بھی میں اپنافرض سمجھتا تھا جس میں مقامی شاہی خاندان کی کسی بڑی شخصیت کو بھی مدعو کیا جاتا تھا ، جس کا مطلب ایک طرف تو پاکستانی شخصیت کی عزت و توقیر سے انہیں باور کرانا ہوتا تھا ، دوسرا ان کے دل میں پاکستانیوں کے لیے ایک نرم گوشہ پیدا کرنا محور و مقصد ہوتا تھا تا کہ وہاں زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو بلایا جائے اور اس طرح میری شاہی خاندان تک رسائی تھی ۔ اس حوالے سے وہاں کے شاہی فوٹو گرافر نور علی راشد سے میری قریبی علیک سلیک تھی ۔ ایک دن نور علی راشد نے مجھے فون کیا اور کہا کہ شیخ مبارک بن محمد النہیان جو اس وقت امارات کے وزیر داخلہ تھے نے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یوں میں نور علی راشد کے ساتھ دبئی سے ابوظہبی شیخ مبارک کے محل میں جا پہنچا ۔ رسمی سلام دعا اور جملوں کے تبادلوں کے بعد شیخ مبارک نے فصیح و بلیغ عربی میں مجھ سے مخاطب ہو کر پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار شروع کر دیا ، عربی چونکہ میں بھی بولتا اور سمجھتا تھا اس لیے کوئی دقت نہ ہوئی اور میں ان کے ہر جملے کے ساتھ ان کے چہرے کے تاثرات بھی پڑھ رہا تھا جن میں بے پناہ خلوص اور مودت عیاں تھی ۔ جب میں نے عربی میں شیخ مبارک سے پاکستان سے محبت کی وجہ پوچھی تو وہ گویا ہوئے .... ایک تو پاکستان برادر مسلم ملک ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ خلیج کے دہانے پر واقع ہے اور خدا نخواستہ اسے کچھ ہوتا ہے تو ہم اس سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں ۔ اس لیے ہم دل وجان سے پاکستان اور پاکستانیوں کو عزیز رکھتے ہیں اور ہم ہر پاکستانی حکمران کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں کہ ہمارے پیش ِ نظر صرف پاکستان ہوتا ہے اور اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کون حکمران ہے ؟ ہم صرف پاکستان کو دیکھتے ہیں ۔ ہاں ذوالفقار علی بھٹو کی بات کچھ اور تھی ، ان کی قابلیت اور صلاحیتوں سے صرف ہم ہی نہیں پورا عالمِ عرب متاثر تھا ، بلاشبہ وہ ایک عالمی راہنما تھے ۔ میں نے تین دن ان کے ہاں قیام کیا اور تینوں دن وہ پاکستان سے محبت کے حوالے سے رطب السان رہے ۔ شیخ مبارک بن محمد النہیان جن کے صاحبزادے شیخ نہیان بن مبارک النہیان متحدہ عرب امارات کے وزیر سائنس و تعلیم ہیں ابو ظہبی کے مرحوم ومغفور اور ہر دلعزیز راہنما شیخ زائد بن سلطان النہیان کے رشتے کے بھائی تھے ، چند برس قبل جب کار کے ایک حادثے میں ان کے بعض جسمانی اعضاءغیر متحرک ہوئے تو انہیں متحدہ عرب امارات کے صدارتی امور کا وزیر مقرر کر دیا گیا ۔ میں نے تین دن ان کے محل میں اپنے قیام کے دوران دیکھا کہ صبح ، دوپہر اور رات کو ان کے ہاں کھانے کا اہتمام ہوتا تھا جس میں بلا شبہ سینکڑوں لوگ شریک ہوتے تھے جن میں اہل محلہ ، شاہی خاندان کے افراد ، ان کے ملازمین ، اعلیٰ حکام بلا تخصیص امیر و غریب ، چھوٹے بڑے کے سب ایک ہی جگہ بیٹھ کر ایک جیسا کھانا کھاتے تھے اور کھانا اس قدر وافر مقدار میں ہوتا تھا کہ لوگ جاتے ہوئے بڑے بڑے تھال بھر کر ساتھ لے جاتے تھے جن میں علاقے میں رہائش پذیر پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی تھی ۔ علاوہ ازیں انہوں نے غریبوں ، مستحقین اور بیواوں کے وظیفے مقرر کر رکھے تھے جو ہر ماہ باقاعدگی سے ان کے گھروں میں پہنچائے جاتے تھے ۔ میری مستند معلومات کے مطابق ان کے بڑے صاحبزادے شیخ نہیان بن مبارک نے ان کی قائم کردہ روایات کو زندہ رکھنے کا عہد کیا ہے، شیخ نہیان بن مبارک النہیان وہی ہیں جن کے تجارتی گروپ کو پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا اعزاز حاصل ہے اور انہیں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزا ز ہلالِ پاکستان بھی عطا کیا گیا ہے ، اپنے والد گرامی کی طرح شیخ نہیان بن مبارک بھی پاکستان سے خصوصی لگاو رکھتے ہیں اور اس سے یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے اربوں درہم کے تجارتی گروپ کے سربراہ محترم بشیر طاہر ہیں جن کا تعلق پاکستان بلکہ لاہور سے ہے ۔ شیخ مبارک بن محمدالنہیان جن کا گذشتہ دنوں انتقال ہوا ہے کے محل میں اہم مناصب پر پاکستان تعینات تھے ۔ دعا ہے کہ خدا وند کریم انہیں جنت میں بلند درجات عطا فرمائے ۔ (آمین .... ثم آمین)
”شیخ مبارک بن محمد النہیا ن کی یاد میں “
Mar 05, 2010
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دبئی میں قیام پذیر تھا اور ایک قومی روزنامے کی امارات میں نمائندگی کرتا تھا ۔ آج کے مقابلے میں ان دنوں پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہاں بسلسلہ روز گار مقیم تھی اور یوں پاکستانی اخبار بڑی تعداد میں یہاں فروخت ہوتے تھے ۔ میں اکثر و بیشتر امارات میں مقیم پاکستانیوں کی سماجی ، ثقافتی اور قومی سرگرمیوں کی تسلسل کے ساتھ بھرپور کوریج کرتا تھا۔ علاوہ ازیں پاکستانی شاعروں پر مبنی مشاعرے ، پاکستانی فنکاروں سے مرصع ورائٹی پروگرام اور قومی و ملکی تقاریب کا انعقاد میرا محبوب مشغلہ تھا جس نے مجھے کافی متحرک رکھا ہوا تھا ۔ علاوہ ازیں جب بھی کبھی کوئی پاکستانی ممتاز شخصیت دبئی آتی تھی تو اس کے اعزاز میں شایانِ شان استقبالیے کا اہتمام کرنا بھی میں اپنافرض سمجھتا تھا جس میں مقامی شاہی خاندان کی کسی بڑی شخصیت کو بھی مدعو کیا جاتا تھا ، جس کا مطلب ایک طرف تو پاکستانی شخصیت کی عزت و توقیر سے انہیں باور کرانا ہوتا تھا ، دوسرا ان کے دل میں پاکستانیوں کے لیے ایک نرم گوشہ پیدا کرنا محور و مقصد ہوتا تھا تا کہ وہاں زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو بلایا جائے اور اس طرح میری شاہی خاندان تک رسائی تھی ۔ اس حوالے سے وہاں کے شاہی فوٹو گرافر نور علی راشد سے میری قریبی علیک سلیک تھی ۔ ایک دن نور علی راشد نے مجھے فون کیا اور کہا کہ شیخ مبارک بن محمد النہیان جو اس وقت امارات کے وزیر داخلہ تھے نے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یوں میں نور علی راشد کے ساتھ دبئی سے ابوظہبی شیخ مبارک کے محل میں جا پہنچا ۔ رسمی سلام دعا اور جملوں کے تبادلوں کے بعد شیخ مبارک نے فصیح و بلیغ عربی میں مجھ سے مخاطب ہو کر پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار شروع کر دیا ، عربی چونکہ میں بھی بولتا اور سمجھتا تھا اس لیے کوئی دقت نہ ہوئی اور میں ان کے ہر جملے کے ساتھ ان کے چہرے کے تاثرات بھی پڑھ رہا تھا جن میں بے پناہ خلوص اور مودت عیاں تھی ۔ جب میں نے عربی میں شیخ مبارک سے پاکستان سے محبت کی وجہ پوچھی تو وہ گویا ہوئے .... ایک تو پاکستان برادر مسلم ملک ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ خلیج کے دہانے پر واقع ہے اور خدا نخواستہ اسے کچھ ہوتا ہے تو ہم اس سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں ۔ اس لیے ہم دل وجان سے پاکستان اور پاکستانیوں کو عزیز رکھتے ہیں اور ہم ہر پاکستانی حکمران کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں کہ ہمارے پیش ِ نظر صرف پاکستان ہوتا ہے اور اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کون حکمران ہے ؟ ہم صرف پاکستان کو دیکھتے ہیں ۔ ہاں ذوالفقار علی بھٹو کی بات کچھ اور تھی ، ان کی قابلیت اور صلاحیتوں سے صرف ہم ہی نہیں پورا عالمِ عرب متاثر تھا ، بلاشبہ وہ ایک عالمی راہنما تھے ۔ میں نے تین دن ان کے ہاں قیام کیا اور تینوں دن وہ پاکستان سے محبت کے حوالے سے رطب السان رہے ۔ شیخ مبارک بن محمد النہیان جن کے صاحبزادے شیخ نہیان بن مبارک النہیان متحدہ عرب امارات کے وزیر سائنس و تعلیم ہیں ابو ظہبی کے مرحوم ومغفور اور ہر دلعزیز راہنما شیخ زائد بن سلطان النہیان کے رشتے کے بھائی تھے ، چند برس قبل جب کار کے ایک حادثے میں ان کے بعض جسمانی اعضاءغیر متحرک ہوئے تو انہیں متحدہ عرب امارات کے صدارتی امور کا وزیر مقرر کر دیا گیا ۔ میں نے تین دن ان کے محل میں اپنے قیام کے دوران دیکھا کہ صبح ، دوپہر اور رات کو ان کے ہاں کھانے کا اہتمام ہوتا تھا جس میں بلا شبہ سینکڑوں لوگ شریک ہوتے تھے جن میں اہل محلہ ، شاہی خاندان کے افراد ، ان کے ملازمین ، اعلیٰ حکام بلا تخصیص امیر و غریب ، چھوٹے بڑے کے سب ایک ہی جگہ بیٹھ کر ایک جیسا کھانا کھاتے تھے اور کھانا اس قدر وافر مقدار میں ہوتا تھا کہ لوگ جاتے ہوئے بڑے بڑے تھال بھر کر ساتھ لے جاتے تھے جن میں علاقے میں رہائش پذیر پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی تھی ۔ علاوہ ازیں انہوں نے غریبوں ، مستحقین اور بیواوں کے وظیفے مقرر کر رکھے تھے جو ہر ماہ باقاعدگی سے ان کے گھروں میں پہنچائے جاتے تھے ۔ میری مستند معلومات کے مطابق ان کے بڑے صاحبزادے شیخ نہیان بن مبارک نے ان کی قائم کردہ روایات کو زندہ رکھنے کا عہد کیا ہے، شیخ نہیان بن مبارک النہیان وہی ہیں جن کے تجارتی گروپ کو پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا اعزاز حاصل ہے اور انہیں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزا ز ہلالِ پاکستان بھی عطا کیا گیا ہے ، اپنے والد گرامی کی طرح شیخ نہیان بن مبارک بھی پاکستان سے خصوصی لگاو رکھتے ہیں اور اس سے یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے اربوں درہم کے تجارتی گروپ کے سربراہ محترم بشیر طاہر ہیں جن کا تعلق پاکستان بلکہ لاہور سے ہے ۔ شیخ مبارک بن محمدالنہیان جن کا گذشتہ دنوں انتقال ہوا ہے کے محل میں اہم مناصب پر پاکستان تعینات تھے ۔ دعا ہے کہ خدا وند کریم انہیں جنت میں بلند درجات عطا فرمائے ۔ (آمین .... ثم آمین)