وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی سے قائداعظم میڈیکل کالج کی جگہ پمز ہسپتال کو کالج میں ضم کرتے ہوئے نیا ادارہ ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی بنانے کا بل منظور کروا لیا۔ اپوزیشن ایم کیو ایم‘ نون لیگ دیگر نے سخت مخالفت و ہنگامہ آرائی کی۔ لیکن مسلم لیگ قائداعظم (ق لیگ) کے اراکین کی حمایت سے پیپلز پارٹی اور اسکے اتحادی قائداعظم کا نام ہٹا کر ذوالفقار علی بھٹو کا نام منظور کرانے میں کامیاب ٹھہرے المیہ یہ ہے کہ قائداعظم میڈیکل کالج خود ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے دوران بنایا تھا اور یہ قائداعظم میڈیکل کالج نام بھی بھٹو مرحوم نے اپنی بصیرت اور قائداعظم کی ملی خدمات کو امر بنانے کے لئے چنا تھا۔
آج بھٹو ازم کی مالا جپنے اور جئے بھٹو کے سیاسی نعرے سے سیاسی فائدے و اقتدار حاصل کرنے والے ”جیالے وزیراعظم و صدر زرداری“ اپنے قائد بھٹو کے فیصلے کو تبدیل کرنے کی حماقت کر رہے ہیں نہ جانے کن ”نورتنوں“ نے ”راجہ و بڑے مہاراجہ“ کو یہ جاہلانہ مشورہ دے کر پیپلز پارٹی سے عوام کو متنفر کرنے کا ”مشن“ چلا دیا ہے اور ”جلد بازی کا فیصلہ شیطان کا“ کے مصداق اس پر عمل کرنا بھی عقلمندوں کا کام نہیں ہوتا۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کے نام کو قومی تاریخ و قومی سٹیج پر ”یادگار“ بنانا ہی مقصود تھا تو ایک کالا باغ ڈیم 2008ءمیں ہی شروع کروا دیتے۔ اس کا نام ”بھٹو ولی ڈیم“ رکھ دیتے۔ 200 سال بھٹو کا نام قائم رہتا اور آج غریب بے روزگار‘ بدحال‘ حکومت کو بددعائیں نہ دیتا۔ سندھ میں جامشورو یونیورسٹی موجود ہے اس کا نام بھٹو یونیورسٹی رکھا جا سکتا ہے! نئی دو یونیورسٹیاں سندھ اور پنجاب میں وفاقی حکومت بنا سکتی تھی۔ کے پی کے صوبہ میں غلام اسحاق خاں یونیورسٹی موجود ہے کسی بڑے ”میگا منصوبے“ کا نام زید اے بھٹو سے منسوب کیا جا سکتا تھا لیکن قائداعظم محمد علی جناح کے نام کو منسوخ کرکے محسن کشی کی مثال قائم کی گئی ہے قومیں تو اپنے ہیروز کو اپنی جان‘ آبرو‘ مالی مفادات کے بڑے نقصانات کروا کر بھی اعلیٰ مقام سے جھکنے نہیں دیتیں۔
مورخ اپنے قلم سے جب بھی زرداری راج کے ملک و قوم دشمن فیصلوں کا ذکر کرے گا تو یہ لازماً لکھا جائے گا۔ نظریاتی فساد پھیلانے والے‘ ڈالروں‘ پونڈز کے ”تھیلے“ بریف کیس لینے والے نام نہاد تجزیہ کار و قلم کار پہلے ہی قائداعظم کے نظریہ پاکستان اور ان کی ذات پر ” حملوں“ کی لائن پر چل کر جوانوں کو گمراہ کرکے نظریاتی فساد پھیلانے کا ضمیر فروشانہ کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں حکمرانوں کو قائداعظم سے متعلق کوئی بھی فیصلہ بہت غور و خوض کے بعد کرنا چاہئے اور اگر غلط فیصلہ ہو ہی گیا تو اسے اپنے اسی اقتدار کے دورانیے میں درست کر دینا لازم ہے۔
قائداعظم کی ذات کے وفادار اور سپاہی بن کر رہو ورنہ امریکہ‘ دبئی‘ کینیڈا‘ جہاںسینگ سمائے چلے جائیں ۔یہ ملک قائداعظم محمد علی جناح کا ہے اور یہاں غیرت مند کروڑوں افراد بانی پاکستان کے آزادی دلانے‘ غلامی ختم کروانے کے احسانات کا بدلہ چکانے پر کمربستہ ہیں یہ اسلامی فلاحی جمہوری نظریاتی پاکستان کے قیام کے لئے اپنا تن من دھن لگا رہے ہیں۔
اگر سیاستدان نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے پندرہ دن کا ”نظریاتی پاکستان“ کا ”نظریاتی درس نظامیہ“ کا کورس کرنے آجاتے تو میاں محمد نواز شریف‘ چودھری شجاعت حسین‘ چودھری پرویز الٰہی‘ الطاف بھائی‘ اسفند یار ولی بھارت کی دوستی اور تجارت کے دلفریب دھوکے کا شکار نہ ہوتے نہ آج قاف لیگ (جو قائداعظم کا مخفف ہے) قائداعظم کی روح کو تڑپانے کا ”جرم“ کرتی۔ قاف لیگی سن لیں کہ پاکستان و عوام دشمن فیصلوں کا منفی نتیجہ عوامی غیظ و غضب کی صورت میں ووٹنگ سے انتخابات والے دن نکلے گا۔ ان سے تو ایم کیو ایم کی قیادت اچھی نکلی جو قومی اسمبلی میں قائداعظم کی تصاویر اٹھائے شدید اختلاف و ہنگامہ آرائی کرتے رہے کہ قائداعظم کا نام منسوخ کرکے ذوالفقار علی بھٹو نہ رکھیں اور افسوس ہے ان ق لیگی اراکین پر جو اپنی سیاسی دکانداری ختم ہونے کے ڈر سے پیپلز پارٹی کے ہمنوا بن گئے۔
ق لیگ مختصر سے مختصر ہوتی جا رہی ہے۔ اب چودھری شجاعت حسین کا معروف ”مٹی پا¶“ فارمولا بھی قوم کو قبول نہ ہو گا کہ قائداعظم سے بے وفائی کا اظہار قوم کو برداشت نہیں وہ پہلے ہی اپنی ”سائیکل“ کئی جگہوں سے ”پنکچر“ کروا چکے اور ”صوفی“ جی پنکچر کیا ”ٹیوبیں“ بھی نئی ڈلوا لیں تو ”سیاسی ہوا“ نکل رہی ہے قائداعظم کے نام کو مسلم لیگ قائداعظم کی متنازعہ سیاست کا شکار کرنے والوں کو عوام انتخابات والے دن دیکھ لیں گے!
قائداعظم کالج ۔۔۔ بھٹویونیورسٹی!
Mar 05, 2013