قوم.... یوم توبہ.... اور ذکر ایک مقبرے کا

Mar 05, 2013

ڈاکٹر اختر شمار

سننے، سمجھنے فکر اور عمل کرنے کی بات ہے کہ قوم کو ”یوم توبہ“ منانا چاہئے تاکہ ہم موجودہ مسائل و مصائب سے نجات حاصل کر سکیں۔ سالار صحافت جناب مجید نظامی نے اگلے روز نظریہ ”پاکستان کانفرنس“ میں نہایت پتے کی بات کی ہے کہ اس وقت جو عذاب اور مصائب ہم پر مسلط ہیں وہ ہمارے ہی اعمال کے نتائج ہیں۔ کیا گہری بات ہے، اگر قوم آئینہ دیکھے، اپنے رویوں، فیصلوں اور روز و شب پر غور کرے تو یہ جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس کا ادراک بھی ہو جائے گا۔ ہم نے سب کچھ ”دنیا“ کو ہی سمجھ لیا ہے۔ آخرت کسی کو یاد نہیں حالانکہ صوفی لوگ کیسے کیسے خوبصورت انداز میں تنبیہ کر گئے کہ ....
سدا نہ باغیں بلبل بولے سدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ ماپے حسن جوانی سدا نہ صحبت یاراں
لوئے لوئے بھر لے کڑیے جے تدھ بھانڈا بھرنا
شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا
وقت ریت کی طرح مٹھی سے گرتا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں وقت گزر جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ ہم سب رات دن کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایک عجیب بھاجڑ سی پڑی ہوئی ہے۔ ہمارے پاس مسکرانے کا وقت بھی نہیں ہے۔ ہم میل جول میں بھی اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ کسی کو معلوم کرنے یا ہنس کر بات کرنے میں بھی فائدے کا پہلے سوچتے ہیں۔ بن مطلب کے کسی سے سلام بھی نہیں لیتے۔ حالانکہ سب کچھ یہیں رہ جانا ہے۔ مگر ابھی تو ہمارے پاس یہ سب کچھ سوچنے کا بھی وقت نہیں۔ بھاگتی دوڑتی زندگی اور شہر کے دھوئیں میں پھولے ہوئے سانسوں میں اپنے آپ سے بے نیاز حضرت انسان اپنے اندر کے کتنے ہی دکھوں میں گھرا ہے۔ اندر کی ٹوٹ پھوٹ کا اسے اس وقت علم ہوتا ہے جب صرف بستر کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ پی آر، دوستیاں، رشتے داریاں، محفلیں، سب قصہ پارینہ بن جاتی ہیں۔ بے طرح ایک شعر یاد آ گیا ....
دھویں کے رنگ سے شہروں کی دیواروں پہ لکھا ہے
بہت محفوظ تھا انسان جب جنگل میں رہتا تھا
اب شہر جنگل بن گئے ہیں کہ درندے شہروں میں آ گئے ہیں۔ کئی ایک تو بھیس بدل کر سیاست میں آ گئے ہیں۔ شہروں میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے مگر حکمران صرف ”دہی“ کھانے سے مطلب رکھتے ہیں۔ پرانے وقتوں کے لوگ ماضی کو یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں ....
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں اور ہم ایک دوسرے پر الزامات لگاتے پھرتے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ اور پنجاب کے صوبائی وزیر قانون ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تلے ہیں۔ جبکہ قوم کسی نگران وزیراعظم کی منتظر ہے۔ الیکشن کے حوالے سے جنرل کیانی اور افتخار چودھری کی وضاحتوں کے باوجود میڈیا کے ’نجومی‘ تذبذب کا شکار ہیں۔ بعضوں کو یقین نہیں کہ انتخابات بروقت ہوں گے۔ اس ساری غیریقینی صورت حال کے باوجود انتخابی اتحاد اور جلسوں کا بازار بھی گرم ہے۔ کئی تانگہ پارٹیاں ان اتحادوں میں سر دے رہی ہیں۔ حکومت اتحادی جماعتیں
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
کے مصداق کئی بار علیحدہ ہوئیں اور ہر بار دوبارہ اتحاد ہو گیا۔ سنا ہے اب پھر ایم کیو ایم اور اے این پی حکومتی اتحاد میں شامل ہو گئی ہیں اور گورنر سندھ کو پرانی تنخواہ پر کام جاری رکھنے کا ”لندنی پروانہ“ موصول ہو چکا ہے۔ ایسے اتحاد کا دعویٰ ہے
اب کسی شخص میں سچ سننے کی ہمت ہے کہاں
مشکلوں سے ہی کوئی پاس بٹھاتا ہے ہمیں
ہم بھی غالب کی طرح شہ کے مصاحب ہیں یہاں
ورنہ اس شہر میں منہ کون لگاتا ہے ہمیں
حالانکہ حکومتی اتحاد کے حریف کہتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں پی پی اتحادیوں کی کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ بعض تو انہیں قبل از وقت اپنا ”مزار“ تیار کرانے کے مشورے بھی دے رہے ہیں۔ بالکل ماڈل ٹاﺅن میں مولانا روم کے مزار کے مشابہ ایک مقبرہ کی طرح ایسا مقبرہ الیکشن کے بعد تیار کرایا جا سکتا ہے۔ جس میں قوم کے دھتکارے ہوئے ’باجماعت‘ دفن ہو سکیں.... واللہ اعلم بالصواب۔

مزیدخبریں