آنے والوں سے امیدیں

نرخ بجلی کے بڑھ گئے ہیں اور
نیا مہنگائی کا چلے گا دور
وہ جو دوبارہ آنا چاہتے ہیں
اپنے انجام پر کریں کچھ غور
جو حکومت بھی اب نئی آئی
کیا بڑھا پائے گی توانائی
وہ کہے گی کہو کہیں ہم کیا
ہم نے ورثے میں پائی رسوائی
کیا الہ دین کوئی آئے گا
جو یہ بجھتے دئیے جلائے گا
اپنے پاﺅں پہ جو کھڑا ہو گا
آئی ایم ایف سے جاں چھڑائے گا
کر دے جو عام آٹا گھی سبزی
کوئی لیڈر تو آئے ایسا بھی
کون ہے ایک وہ کروڑوں سے
جو جتائے گا آ کے ہمدردی
کتنے برسوں سے منتظر ہیں ہم
کچھ تو ہوں ملک کے مسائل کم
اسی امید پر ہوئے بوڑھے
نسلِ نو کو ملے نہ کوئی غم
جانے والے تو خیر جائیں گے
اب نہ وہ ہم کو منہ دکھائیں گے
کی ہیں وابستہ ان سے امیدیں
جو نیا عزم لے کے آئیں گے
سوچ کر آئیں وہ ہے کیا کرنا
کیسے ماضی کا زخم ہے بھرنا
اور جینے کی آرزو کیا ہو
ہے اگر بھوک پیاس سے مرنا

ای پیپر دی نیشن