قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکرفیصل کریم کنڈی کی زیرصدارت شروع ھوا تو ایوان میں ملک میں امن و امان کی صورتحال پر زبردست گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔سانحہ عباس ٹاون پر ایم کیو ایم کی تحریک التوا پر وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کو روکنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، انہوں نے ایوان کو بتایا کہ سانحہ عباس ٹاؤن میں ملوث لشکری جھنگوی کے چار ارکان گرفتار کر لیے گئے ہیں، گرفتار افراد کے اقبالی بیانات بھی ہوچکے ہیںِ۔ انہوں نے کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ لشکر جھنگوی کونسی سپر پاور ہے، تمام قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو لاہور میں بٹھا دیتا ہوں تاکہ کالعدم تنظیموں کو پکڑا جا سکے، کوئٹہ کے سانحات میں ملوث تمام لوگ پکڑے گئے ہیں۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ وہ ایوان کو کل تفصیلی طور پر سارے حقائق سے آگاہ کریں گے۔سانحہ عباس ٹاؤن پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایم کیو ایم کے وسیم اختر نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کو سٹیٹ کی پشت پناہی حاصل ہے جبکہ اے این پی کے دفتر میں دہشتگردوں کے ٹھکانے ہیںِ ،کیا یہ سب ایجنسیوں کو نظر نہیں آرہا۔ نون لیگ کے خواجہ آصف نے کہا کہ انہوں نے سیاسی کیرئیر میں اتنی بے حس اسمبلی نہیں دیکھی، کراچی میں رینجرز مسائل کا حصہ بن چکے ہیں۔وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے کہا دہشتگردی کی نرسریاں کہاں ہیں، کون سی قوتیں ملوث ہیں؟ اس پربحث کی جائے۔نورعالم نے پنجاب حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے ہیں، صوبائی حکومت کے وزیر کالعدم تنظیموں کے ساتھ ہیں۔ وزیر مملکت امتیاز صفدر وڑائچ نے کہا کہ وزیراعلٰی پنجاب کہتے ہیں کہ انکا اور دہشتگردوں کا ایجنڈا ایک ہے، وہ پنجاب کو بخش دیں، ان کے ریمارکس پر نون لیگ نے شدید احتجاج کیا۔ اس سے قبل ریاض فتیانہ نے امتناع جسمانی سزا بل دوہزار دس پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جبکہ چئیرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی ندیم افضل چن نے پے اے سی کی خصوصی رپورٹ بھی ایوان میں پیش کی جسکے بعد اجلاس بدھ کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔