”مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے “ یہ اس کائنات کی اتنی بڑی سچائی ہے کہ لاکھ انکار اس سچائی کو گہنا نہیں سکتے تاریخ عالم پر نظر ڈالی جائے اقتدار و اختیار کے بل بوتے پر خدائی دعوی کرنے والے ایک دن کیسے تہہ خاک کس انجام سے دو چار ہوئے ہیں۔ خود انہیں بھی معلوم نہیں ہوتا اور احساس تو ہوتا ہی نہیں ہے ورنہ خدائی دعویٰ ہی نہ کریں بے شک ”میں“ انسانی جبلت ہے اور ”انا “ بھی کہ دیگر جانداروں سے ممیز کرتی ہے لیکن عزت نفس کے تحفظ کا ذریعہ رہے تو انسانی وقار کی سربلندی کا سبب ہے اور اگر تکبر اور انانیت میں ڈھل جائے تو پھر انسان فرعون‘ شداد نمرود اور قارون بن جاتا ہے اور خود پر خدا ہونے کا گمان کرنے لگتا ہے اور یہی نامسعود لمحات اسے اپنے ہی جیسے انسانوں میں رسوائی اور نفرت کا استعارہ بنا دیتے ہیں اور جن شخصیات میں تکبر و انانیت ڈھونڈے نہیں ملتی دیکھے بغیر ان کے ذکر پر برائے عقیدت نگاہیں بے اختیار جھکتی اور دلوں میں احترام کے گلستان جاگ اٹھتے ہیں خدا کے انبیائے کرام کہ رب کائنات نے جن میں عجز و انکساری کا وہ جوہر رکھ دیا کہ وہ بطور انسان ان کی تمام جبلتوں اور خصلتوں پر حاوی ہے آج بھی اپنے ارد گرد نظر دوڑائی جائے عاجزی اور انکساری کے پیکر میں ڈھلا شخص نظروں میں غیر ارادی طور پر محترم و ممتاز ہو جاتا ہے قرآن حکیم میں سرور کائنات کا نام نامی اسم گرامی صرف چار بار ”محمد“ اور صرف ایک بار ”احمد“ آیا ہے جبکہ فرعون کا نام ایک سو بار سے زائد ہے قرآن حکیم جیسی چیز میں سو بار سے زائد نام آنے والے کا مرتبہ و مقام تو ہادی النظر میں بہت بلند و برتر ہونا چاہئےے مگر وہ تو نفرت و عبرت کی علامت بن چکا ہے میرے بہت پیارے دوست نے جب یہ بات بتائی طبیعت میں کراہت سی ہوئی کہ فرعون کی حنوط شدہ لاش میں ہر سال قدرتی طور پر گوشت چڑھ جاتا ہے جسے صاف کرنے کے لئے اس کے تابوت میں چوہے چھوڑے جاتے ہیں بے شک ”گیرد نہ گیرد‘ گیرد سخت گیرد“ اللہ سبحانہ تعالیٰ پکڑے تو نہ پکڑے وہ رحیم و کریم ہے لیکن اگر پکڑے تو پھر اس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ برصغیر میں پیسے کی ہوس میں مرزا قادیانی نے بھی ”خدا مجھ میں حلول کر گیا“ کا احمقانہ دعویٰ کیا تھا دنیا میں کس انجام سے دو چار ہوا اور کس ذلت آمیز انداز سے موت سے گڑھے میں اترا دنیا میں دو انسان ایسے ہیں جن کی قبریں ہی نہیں ملتی ایک فرعون اور دوسرا اس کا وزیر خزانہ قارون، فرعون کو اقتدار کا غرور تھا اور قارون کو پیسے کا یعنی دولت جائیداد کا تکبر تھا اس کی دولت و جائیداد ہی نہیں خود دنیا سے اس کا نشان مٹ گیا صرف تاریخ میں نام ہے وہ بھی درس عبرت کے لئے “ اور یہ درس عبرت کا تقاضا ہے آج کے حکمران اور ان کے وزرائے خزانہ خود احتسابی کا عمل اختیار کریں کیا تکبر اور ہوس زر نے انہیں اپنے شکنجہ میں تو نہیں لے رکھا انبیاءکرام کے حوالے سے تو کہا جا سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان میں برائی کی صفت ہی نہیں رکھی لیکن چار شخصیتوں کا چار شخصیتوں سے موازنہ کر کے دیکھتے ہیں نمرود، شداد، فرعون اور قارون، جن کی دولت و ثروت کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا دنیا کی وہ کون سی ”قابل ذکر چیز تھی جو ان کے پنجہ قبضہ میں نہ تھی لیکن کیا وہ آج صدیاں گزرنے کے بعد بھی عزت وار ہیں دنیا کا کوئی شخص حتی کہ کافر بھی ان کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں ان کے مقابلے میں چار شخصیات حضرت سنجرؒ، حضرت سلیم چشتیؒ، حضرت جنید بغدادیؒ اور حضرت بایزید بسطامیؒ ان کے پاس کیا تھا نہ گھر نہ بار‘ خوراک فاقے، لباس گدڑی مگر عاجزی بے حساب انکساری بے شمار جو دراصل مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے کا عملی مظاہرہ آج صدیاں گزر گئیں کسی نے دیکھا کس نے براہ راست مادی فیض حاصل کیا کس سے خونی رشتہ تھا مگر آج کون ہے جو ان کے لئے احترام و عقیدت کے سوا جذبات رکھتا ہو اگر کوئی قرآن کے اس ارشاد گرامی کو ماننے سے انکار کر دے ”کل نفس ذائقة الموت“ تب بھی اسے یہ ذائقہ چھکنا ضرور ہے اور اپنی نگاہوں کے سامنے جن لوگوں نے یہ ذائقہ چکھا تو کیا وہ ”سکندر جب گیا دنیا سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے تفسیر نہیں ہے اور یہ اللہ والے ہی نہیں دنیا دار حکمرانوں نے بھی اگر مخلوق خدا کو راحت پہنچانے کا سامان کیا عوام کو ظالمانہ ٹیکسوں کے شکنجے میں جکڑا ملکی دولت لوٹ کر عالیشان محلات تعمیر نہ کئے ایسی پالیسیاں اختیار نہ کیں عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ملکی دولت مختلف انداز سے ہتھیا کر بیرونی ملکوں کے بینکوں میں جمع کروا کر ان کی معیشت مضبوط اور اپنے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق نہ کیا تو وہ آج بھی نیک نام‘ عوام میں بے انتہا مقبول اور سب سے بڑھ کر خود اندر سے روحانی طور پر اسودہ و مطمئن ہیں سوچ لیا جائے اصل کمائی کیا ہے عبرت یا عزت یہ فیصلہ خود حکمرانوں کے ہاتھ ہے۔