ایلوپیتھک ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ انسان کا صحت مند رہنا حیران کن اور بیمار ہونا معمول ہے کیونکہ انسان کی جسمانی مشینری انتہائی پیچیدہ ہے اور جس کے ہر ذرے نے اپنا کام بھی بخوبی ادا کرنا ہے اور یہ ذرے کروڑوں اربوں بلکہ ان گنت ہیں۔ اگر انسانی اعضاءاور اعصابی ذرے بیمار پڑ جائیں تو ایلوپیتھک طریق علاج میں متاثرہ اعضاءکی تقویت اور جراثیم کشی کی دوا دی جاتی ہے جس سے اکثر اوقات دیگر اعضاءبھی متاثر ہو جاتے ہیں۔ اچھے ڈاکٹرز دوا کے منفی اثرات (Side affects) مدنظر رکھ کر دوا اور نسخہ تجویز کرتے ہیں۔ نیز ایلوپیتھک ڈاکٹرز کی اکثریت کا کاروبار علاج ہے۔ ڈاکٹر شہریار، ڈاکٹر عامر عزیز جیسے بے شمار ڈاکٹرز انسانیت کی خدمت کے لئے فلاحی اور خدمت کے لئے خیراتی ادارے بھی چلاتے ہیں مگر مریضوں کی تعداد زیادہ اور اچھے معالجین (ڈاکٹرز) کی تعداد کم ہے۔ صحت کے لحاظ سے انسانی جسم ایک اکائی ہے اور اس اکائی کا ایک مرکز اور محور ہے۔ اگر اس اکائی یعنی نیوکلس کی خرابی کا علاج کیا جائے تو بہت کئی دیگر امراض بھی رفع ہو جاتے ہیں۔ حکماءبلڈ پریشر، شوگر وغیرہ کی علامات سے زیادہ اسباب کا علاج کرتے ہیں اور یہ طریق علاج ٹریٹمنٹ نہیں کیور (No treatmentt but cure) کہلاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت پاکستان میں حکیم صابر ملتانی نے مفرد (Uni organ theory) کے طریق علاج کو رواج دیا، جس کی بنیاد علاج بالغذا ہے اور یہ اصولاً خالق اور مخلوق کی جسمانی ساخت اور غذائی طاقت پر منحصر ہے۔ علاج بالغذا میں ادویات کا استعمال شاذ و نادر ہے۔ اگر ہے تو وہ قوت مدافعت اور ایمونٹی فورس (Vital and Immunty Force) کو مضبوط کرنے کے لئے ہے۔ حکیم صابر ملتانی کے شاگرد حکیم محمد رفیق شاہین کا کہنا ہے کہ خراب صحت کی بحالی میں 50 فیصد غذا، 25 فیصد ماحول اور 25 فیصد ادویہ کا حصہ ہے۔ حکیم رفیق شاہین صاحب نے نومبر 2009ءمیں صابر شاہین ویلفیئر فا¶نڈیشن کی بنیاد رکھی جو خیراتی، غیر تجارتی اور غیر سیاسی ادارہ ہے۔ علاج بالغذا انگریزی (ایلوپیتھک) طریق علاج کی نسبت سستا، اچھا اور ہر انسان کی دسترس میں ہے۔ راقم نے ذاتی زندگی میں صابر شاہین فا¶نڈیشن کے حکیم رفیق شاہین اور ان کی ٹیم کو بے لوث خدمت کا مظہر پایا ہے۔ سال قبل میرا بیٹا بیمار ہوا، مختلف چھوٹے بڑے ڈاکٹرز اور ٹیسٹ کرائے، ڈاکٹرز کی تشخیص میں اختلاف رہا مگر حکیم صاحب نے نبض اور قارورہ دیکھ کر مریض کی تشخیص کی جو بعدازاں لیبارٹری ٹیسٹ میں بھی آ گئے۔ اسی طرح پچھلے دنوں راقم بھی بیمار پڑا، ٹیسٹ، کرائے، اکثر ڈاکٹرز نے علامات کو مدنظر رکھ کر دوا تجویز کی جو راقم کے دل کو نہیں لگی، بالآخر صابر شاہین فا¶نڈیشن شمع سینما، اچھرہ اور چوک یتیم خانہ لاہور پہنچا۔ حکیم صاحب نے نبض اور قارورہ دیکھ کر مذکورہ تمام علامات اور امراض کی نشاندہی اور جو خوراک تجویز کی، اس کا فوری اثر پڑا۔ راقم کی حکومت اور مخیر حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ایلوپیتھک / میڈیسن طریق علاج کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ بالخصوص علاج بالغذا، حکمت، ہومیو پیتھک اور دیگر طریق علاج کی بھی سرپرستی کریں۔ حکیم صاحب کا کہنا ہے کہ مریض کے فوری، م¶ثر اور دیرپا علاج کے لئے ضروری ہے کہ مریض کی مسلسل نگہداشت اور دیکھ بھال کی جائے۔ حکیم صاحب کا کہنا ہے کہ مختلف طریق ہائے علاج کی آپشن (Option) ہر سرکاری ہسپتال میں فراہم کی جائے اور پھر دیکھا جائے کہ ڈینگی یا دیگر وبائی امراض سے صحت مند ہونے والے مریضوں کی رائے اور تعداد کا تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ پاکستان میں اچھے ڈاکٹروں، حکیموں اور ہومیو پیتھک معالجوں کی کمی نہیں، تشخیص اور تجویز (نسخہ) علاج ابتدائی مراحل میں اصل علاج مریض اور معالج کا مسلسل رابطہ ہے جو مریضوں کو ہسپتالوں میں نگہداشت اور نگرانی کے بغیر ناممکن ہے۔ علاج بالغذا کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے ہسپتالوں، ڈسپنسریوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے بہتر ہے کہ مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں علاج بالغذا اور ہومیو پیتھک معالجوں کے شعبے بھی قائم کئے جائیں۔ ابتدا میں مذکورہ سرکاری سرپرستی عجیب اور انوکھی لگے گی مگر بالآخر ایلوپیتھک طریق علاج کے ساتھ دیگر مروجہ طریق علاج بھی سرکاری سرپرستی میں کام کرنے کے باعث بہتر نتائج فراہم کریں گے اور ملک کے بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد بھی مذکورہ طریق علاج کے ضمن میں سنجیدگی سے علاج کو بہتر سے بہتر بنانے میں مدد کریں۔
علاج بالغذا کو سرکاری سرپرستی کی ضرورت
Mar 05, 2014