سلطان سکندر
’’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘‘ کے مصداق بھارت کے ساتھ دوستانہ فراخدلانہ اور تجارتی تعلقات کے قیام کے ’’انتخابی منڈیٹ‘‘ کے دعویدار اور خواہش مند کشمیری نثر اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے موجودہ دور حکومت میں پہلی بار اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان باضابطہ مذاکرات ہوئے ہیں۔ جنہیں بعداز خرابی بسیار بھی کہا جاسکتا ہے اور دیر آید درست آید بھی۔ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے فاٹا، بلوچستان میں بھارتی مداخلت، مسئلہ کشمیر، کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری کی خلاف ورزی اور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کے معاملات اٹھائے ،جبکہ بھارت کی طرف سے بمبئی حملوں اور دہشت گردی کا معاملہ اٹھایا گیا جبکہ بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کرکے انہیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا مکتوب پہنچایا اور میاں نوازشریف نے اسی بات پر زور دیا کے دونوں ممالک کو تمام دیرینہ تنازعات کے حل کی جانب پیش رفت کرنی چاہئے، پاکستان کے سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کے مذاکرات کے نتیجے میں تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لئے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق ہوا ہے کہ فوری بریک تھرو کی توقع نہ کی جائے ۔بھارت پر واضح کردیا ہے کہ جموں کشمیر کا مسئلہ ہمارے لئے اہم بہت اہم ہے۔ دوسری طرف بھارتی سیکرٹری خارجہ نے میڈیا کے سامنے کشمیر کا نام نہیں لیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی تھی اور اس موقع پر ملاقات میں دوستانے اور تجارتی تعلقات کی بحالی پر زور دیا تھا۔ دونوں وزراء اعظم کے درمیان نیپال میں سارک سربراہ کا نفرنس اور نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سرسری ملاقاتیں ہوئی تھیں اوراس طرح مسئلے کشمیر سمیت تمام حل طلب مسائل پر ٹھوس گفت و شنید کا اہتمام کرنے کی بجائے بھارت سرکار نے مقبوضہ کشمیریوں پر ظلم و ستم میں اضافے اور کنٹرول لائن اور پارک بھارت سرحد پر مسلسل اور بلاجواز جارحیت کا ارتکاب کیا۔ اسی طرح پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ یکطرفہ دوستی کی خواہش تشنہء تکمیل رہی حتیٰ کے پاکستان کے مشیر اور خارجہ سرتاج عزیز کو کہنا پڑا کے مذاکرات کا سلسلہ بھارت کی طرف سے منقطع کیا گیا اب اسے ہی اس میں پہل کرنی پڑے گی۔ چنانچہ اب جب بھارت کے ساتھ خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کا سلسلہ بحال ہوا ہے آرپار کی کشمیری قیادت کو مذاکرات سے پہلے یا بعد میں مشاورت اور اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی حالانکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے دور حکومت میں آر پار کی کشمیری قیادت سے نہ صرف مشاورت کی جاتی رہی بلکہ ان کی تجاویز کو بھی مذاکرات کا حصہ بنایا جاتا رہا۔ پھر پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دور میں جب آصف علی زرداری نے محبوبہ مفتی کو کشمیری شال تحفہ میں دی تھی اور بندوق کو زنگ لگ جانے کی بات کرکے کشمیریوں کو مایوسی سے دوچار کیا تھا، کشمیری قیادت سے ایک دو بار ہی مشاورت کی گئی تھی۔ اب وزیراعظم اور وزراء خارجہ کی سطح پر نہ سہی خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ہی مذاکرات کا آغاز ہوا ہے تو آر پار کی کشمیری قیادت کو نہ صرف دفتر خارجہ بلکہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی سطح پر مشاورت اور اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مقصد کے لئے ایک مستقل میکانزم بنایا جائے جہاں تک وزیراعظم پاکستان کے نام وزیراعظم بھارت کے مکتوب کا تعلق ہے ظاہر ہے کہ پاکستان سے بھی اپنے ہم منصب کے نام جوابی مکتوب ارسال کیا جائے گا، جو آئندہ مذاکرات میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ لے کر جائیں گے۔ لیکن سیکرٹری خارجہ سطح کے آئندہ مذاکرات کب ہوں گے یا یہ وزراء خارجہ کی سطح پر ہوں گے اس بارے میں سردست کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ جوابی مکتوب کی نوبت کب آئے گی؟ جانے شاعر نے کسی ایسی ہی کیفیت میں نامہ بر سے مخاطب ہو کر یہ شعر کہا تھا۔ ؎ نامہ بر تُو ہی بتا تُونے تو دیکھے ہوں گےکیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں