لاہور (فرخ سعید خواجہ) سینٹ کے الیکشن کے اگلے روز ہی سرگودھا سے صوبائی اسمبلی پنجاب کے حلقہ پی پی 30 سے مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدوار یاسر ظفر سندھو نے اپنے مدمقابل پی ٹی آئی کے راؤ ساجد محمود کو 19 ہزار 156 ووٹوں سے شکست دے دی۔ الیکشن 2013ء میں طاہر سندھو نے اس نشست پر 37 ہزار 624 ووٹ حاصل کرکے کامیابی کی تھی۔ 28 جولائی کو وزیراعظم نواز شریف کے سپریم کورٹ سے نااہلی کے فیصلے کے بعد سے نواز شریف کے بیانیے ووٹ کے تقدس کی بحالی کے حق میں پہلا فیصلہ این اے 120 میں آیا جب تمام تر دباؤ کے باوجود ووٹروں نے نواز شریف کی خالی کی گئی نشست پر ان کی اہلیہ کلثوم نواز کو 15 ہزار سے زائد ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب کروایا۔ اس کے بعد ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی یکے بعد دیگرے کامیابی اور بڑے بڑے جلسوں نے ثابت کیا کہ مسلم لیگ ن کا ووٹر اور سپورٹر آنے والے الیکشن کے لئے یکسو ہو چکا۔ نواز شریف کے خلاف پارٹی صدارت سے محرومی کا فیصلہ آنے کے بعد ان کی پارٹی کے سینٹ اور پی پی 30 کے امیدوار پارٹی نشان سے محروم ہو گئے اور انہوں نے آزاد حیثیت میں میدان مار کر ثابت کر دیا مسلم لیگ ن اس وقت سیاسی میدان میں مقبولیت کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ لودھراں کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی یقینی کامیابی کو شکست میں تبدیل کرنے کے واقعہ نے پی ٹی آئی کی چولیں ہلا دیں۔ عمران نے اس شکست سے سبق سیکھ کر الیکشن جیتنے کے لئے فورس کے قیام کا دعویٰ کیا لیکن غیر حتمی غیر سرکاری نتیجہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ مسلم لیگ ن کے امیدوار نے الیکشن 2013 کے 37 ہزار ووٹوں کی نسبت اب 5 ہزار کے قریب زائد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ لودھراں میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 اور اب پی پی 30 سرگودھا کے انتخابی نتائج کے اثرات الیکشن 2018 پر خواہ مرتب نہ ہوں لیکن اتنا اثر ضرور پڑے گا کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے ارکان اسمبلی اپنی پارٹی ہی کا ٹکٹ لینے کو ترجیح دیں گے۔ البتہ چند سیاسی مسافر ضرور پارٹی تبدیل کریں گے اور کچھ حلقوں میں اسٹیبلشمنٹ بھی کام دکھائے گی تاہم الیکشن ہونے کی صورت میں مسلم لیگ ن کا پلڑا بھاری رہے گا۔