بس ایسے ہی پروین شاکر یاد آگئی، کیا خوب کہا تھا اس نے کہ:
’’ممنوع قرار پاگئے ہیں… جس بزم میں حرفِ خاص تھے ہم…‘‘
اسی کے سنگ سنگ نوشی گیلانی کے ایک شعر نے بھی دل و دماغ پر آ دستک دی کہ:
یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے
تمہیں آنکھیں نہیں ملتیں ہمیں چہرہ نہیں ملتا
قارئین بھی سوچتے ہوں گے، سرخی سینٹ اور سینٹ کے الیکشن کی داغی ہے جس سے نیت انتخابی بحث و تمحیص کی لگتی ہے اور ہے بھی سیاست اور سینٹ الیکشن کا گرما گرم ماحول مگر نہ ابتدا میں کسی جلتی پر تیل ڈالا گیا، نہ کوئی مبارکباد اور نہ کسی ہار کے زخم پر مرہم بلکہ اسکے برعکس صریر خامے کا آغاز شاعری کا رنگ روپ اور پیرہن اوڑھے ہے۔ قارئین نے ٹھیک ہی سوچا ہے اگر ایسے سوچا ہے تو، کیا کہیں اور کیا کریں اس الیکشن کو؟گر بلوچستان میں قبل از انتخابات کچھ ہینکی پھینکی ہوئی ہے تو کوئی کسی پارٹی میں چند دن قبل آیا اور ٹکٹ کا حق دار قرار پایا۔ اسکی ایک اہم مثال مشاہد حسین سید ہے۔ حیرانی والی بات ہے کہ میاں نواز شریف کا بیانیہ کس قدر ’’پاپولر‘‘ ہے کہ پی سی او ججوں کو خوب رگیدتا ہے لیکن مشاہد حسین سید جو چند دن قبل ق لیگ کا سینیٹر ہی نہیں تھا بلکہ ق لیگ کا جنرل سیکرٹری بھی تھا اور ق لیگ بھی وہ جو مشرف نے بنائی اور پروان چڑھائی۔
پنجاب سے سابق گورنر چوہدری محمد سرور کے، اتنے ووٹ لے گئے کہ پی ٹی آئی خوش ہو گئی اور کیا چاہئے پی ٹی آئی کو؟ جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کروپ کے سربراہ حضرت سمیع الحق تحریک انصاف کے انصاف اور جمہوریت کے سبب تین ووٹوں تک محدود رہ کر آسمان سے گرے اور کھجور میں بھی نہ اٹکے اور سیدھے دھڑام سے زمین پر آ گرے تاہم جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے طلحہ محمود نے ضرورت سے زیادہ ووٹ لے کر جمہوریت کو کیا خوب انجوائے کیا۔ طلحہ محمود صاحب غضب کے ’’رفاہی و فلاحی‘‘ آدمی ہیں۔ میں پچھلے دنوں جب کاغان و ناران گیا تو موصوف کے قیمتی ہورڈنگ جگہ جگہ دیکھے جو انکی سیاسی ’’بصیرت‘‘ اور ’’فلاحی‘‘ رویئے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہی نہیں چہ جائیکہ ان کا تعلق کے پی کے سے ہے مگر پنجاب اسمبلی تک ممبران کو چھوٹے موٹے گفٹ پہنچانا انکے حسن انتظام کا خاصہ ہے۔ شاید یہی ہماری جمہوریت کا حسن ہے مگر یہ حسن و جمال سندھ کے پی پی پی ممبران اسمبلی کے ہاں کبھی دکھائی نہیں دیتا بلکہ سرائیکی پٹی سے سندھ تک چلے جائیں آپکو ایک بھی ممبر قومی اسمبلی ایسا نہیں ملے گا جس کا سنٹرل پنجاب کے پی پی کارکنان یا لیڈران سے کوئی مربوط رابطہ ہو۔ کیا نوید قمر یا کیا خورشید شاہ، اسی طرح کیا ڈاکٹر ڈاکٹر قیوم سومرو اور کیا ڈاکٹر خواجہ کریم یہ سب بولنے میں میٹھے ہونگے، اگر بولیں، مگر پنجاب میں یہ سیاسی و سماجی و اخلاقی طور پر بیکار ہیں۔ سندھ کے ان جیالوں کا خیال ہے کہ، بلوچستان اور سرائیکی پٹی تک سلام دعا رکھ کر ایوانوں تک پہنچ جائینگے تو یہ انکی خام خیالی ہے۔ مانا کہ، بلوچستان میں ہلچل مچا لی گئی ہے لیکن اس کا عام آدمی کو کیا فائدہ؟ عوام سے بالا بالا ایوان تک پہنچنا کتنا سودمند ہے اس کا پتہ 2018 کا الیکشن بتا دے گا۔ جب بھٹو سارے پاکستان کے گھر گھر پہنچا تھا اس وقت لگتا تھا کہ بھٹو غریب کے جھونپڑے میں رہتا ہے، آج آپ نگر نگر بلاول ہاؤس بنالو یا بستی بستی بلاول زرداری کی ہالو تقریریں کرالو اس سے کوئی فرق پڑتا دکھائی نہیں دیگا… اور نہ یہ ممبرشپ پرچیاں کوئی سیاسی رخ متعین کرتی نظر آرہی ہیں۔ ڈاکٹر قیوم سومرو یا جمیل سومرو یا پھر رخسانہ بنگش، زرداری صاحب کے پیادے کے طور پر کوئی کردار تو ممکن ہے ادا کرجائیں لیکن کسی قسم کی کوئی سیاسی و عوامی مقناطیسیت ان میں قطعی نہیں جو بھٹو کے ووٹرز کو متاثر کرسکیں۔ ہاں بھٹو کے ووٹرز اور نوجوان کو بلاول بھٹو زرداری، آصفہ اور بختاور متاثر کرسکتے ہیں اگر یہ عوامی و اخلاقی رنگ اور بینظیر بھٹو سا تحرک رکھیں، اگر کوئی کہے کہ فریال تالپور یا سومرو شومرو کے سبب یا کسی یوسف رضا گیلانی ہی کی بدولت یہ سیاست کے زیر و زبر کو سمجھ جائیں گے تو یہ ممکن نہیں۔ یوسف رضا گیلانی یا ان کے پسندیدہ نتاشہ دولتانہ یا کسی ٹوچی سوچی خان نے جو تعاون سابق وفاقی وزیر مرزا ناصر بیگ کے بیٹے مرزا علی ناصر بیگ کے ساتھ لودھراں ضمنی الیکشن میں کرلیا وہ سب پر عیاں ہوگیا۔ مرزا ناصر بیگ نستعلیق آدمی ہیں امید ہے وہ ن لیگ چھوڑ کر واپس آنے پر زیادہ دلبرداشتہ نہیں ہونگے۔
راقم ہمیشہ ان لوگوں پر سخت تنقید کرتا ہے جو پارٹیاں چھوڑ جاتے ہیں، گویا لوٹوں کیلئے آج بھی میرے دل میں کوئی خاص اہمیت نہیں۔ بھلے ہی وہ الیکٹ ایبل ہوں۔ ہمارے پیارے دوست سابق ایم این اے و سابق ایم پی اے میجر (ر) ذوالفقار گوندل (برادر نذر محمد گوندل/ ماموں ندیم افضل چن) کا شکریہ کہ وہ مائنڈ نہیں کرتے اور ہماری کڑی تنقید پر مسکرا دیتے ہیں۔ آج ان کا ایک جملہ یاد آگیا ہے جس کے حوالے کے بغیر شاید آگے بڑھنا مشکل ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ کیا کبھی پاکستان میں ایسا وقت بھی آئیگا کہ قیادت اپنی ناکامیوں کی وجہ اور پارٹیوں کو نہ چلانے کی پاداش میں خود کسی اور کے ہاتھ میں باگ ڈور دیکر خود کارنر ہوجائیں یا پارٹیوں کو دور بیٹھ کر چلتا دیکھیں؟ میرا ان کیلئے ہمدردانہ مشورہ ہے کہ فی الحال وہ ایسا سوچیں بھی نہ، ورنہ دل کے ٹکڑے ہزار ہونگے کوئی یہاں گرے گا کوئی وہاں گرے گا!!!
کل ہم نے پی پی پی کے 2008 تا 2011 تک کے سرگرم کارکن نما لیڈر راجہ ریاض کو عرصہ بعد شاداں و فرحاں دیکھا جب انہیں نومنتخب سینیٹر چوہدری محمد سرور کے اڑوس پڑوس پایا تو خیال آیا کہ، او ہو، یار اس شخص پر میں نے پی پی پی چھوڑنے پر تنقید کے کس قدر تیر و نشتر چلائے لیکن بعد ازاں تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ، یہ شخص پارٹی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا، پارٹی نہ چھوڑنے کی خاطر اس نے گھر جاکر فریال تالپور صاحبہ سے معافی بھی مانگی مگر سب بے سود ٹھہرا۔ واضح رہے کہ اس بات کا راوی کوئی اہم شخص اور ہے، خود راجہ ریاض نہیں ، نہ میری کبھی اس سے بات ہوئی ہے۔
پنجاب بلوچستان نہیں، اور نہ ایوان بالا کے الیکشن سیاسی و انتخابی وہ رنگ جماتے ہیں جس جنرل الیکشن کا انعقاد اور رنگ 2018 میں جمنے جارہا ہے۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ، قمر زمان کائرہ، چوہدری منظور، رانا فاروق سعید وغیرہ کو گزشتہ تنظیم سازی مہم کی طرح جاگنا ہوگا۔ سب آشنا ہیں پنجاب میں اکثریت کا مطلب پاکستان میں اکثریت ہے اور پنجاب میں حکومت کا مطلب پاکستان میں حکومت ہے۔ ان سینٹ الیکشن کی اہمیت یقینا بہت زیادہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا لیکن پی پی پی یہ ضرور یاد رکھے کہ، پنجاب میں بہرحال صورتحال ابھی لودھراں اور حلقہ 120 لاہور ضمنی الیکشن سی ہے جہاں کوئی مرزا یا میر آزاد لڑ کر پی پی پی ٹکٹ سے زیادہ ووٹ سمیٹ سکتے ہیں!
ہم حسن ظن ہے کہ پی پی کو روایتی سیاست بہرحال آتی ہے۔ اگرچہ بلوچستان سے ان کا کوئی امیدوار نہیں جیت سکا لیکن کے پی کے سے صرف 7 ممبران رکھنے کے باوجود 2 سیٹیں نکال لیں حالانکہ ایک جنرل نشست جیتنے کیلئے 18 ووٹ درکار تھے۔ مسلم لیگ ن کے پاس 17 ممبران تھے تاہم وہ بھی کے پی کے سے 2 سیٹیں چرا لے گئے۔ بہرحال پی ٹی آئی کو کے پی کے میں دھچکا لگا جو انہوں نے پنجاب میں چوہدری سرور کو جتواکر ایک اپ سیٹ سے ن کو دھچکا دیکر کسی حدتک حساب چکتا کرلیا۔ بلور خاندان کے الیاس بلور اور اے این پی سینٹ سے فارغ قرار پائے مگر جلسوں کے سٹیج سیکرٹری نوجوان فیصل جاوید کو جتوا کر ٹی آئی نے اچھا کیا۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ برا ہوا تاہم زیادہ قصور ڈاکٹر فاروق ستار کا ہے۔ نئے لوگوں میں بہرحال سندھ سے کرشنا کماری کوہلی متوسط طبقہ سے سماجی خاتون کا آنا جہاں خوش آئند ہے وہاں حیران کن بھی ہے کہ اعتزاز احسن پر اسے فوقیت دی گئی۔ سندھ سے اسلام آباد کے نوجوان مصطفی نواز کھوکھر کو جتوانا بھی قابل ستائش ہے مگر پی پی کے فرحت اللہ بابر اور دانشور جان محمد کی کمی بہرحال سینٹ محسوس کریگا۔ میاں رضا ربانی پھر منتخب ہوگئے یہ بھی اچھا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ نواز بیانیے کی تقویت کیلئے پرویز رشید کو ن لیگ نے سینٹ کے چیئرمین کے لئے نامزد کیا ہے۔
اس دفعہ سینٹ کا الیکشن کئی حوالوں سے منفرد تھا، ایک طرف نواز شریف کے بیانیے نے سیاسی حلقوں میں دھوم مچا رکھی ہے تو دوسری جانب جنرل الیکشن 2018 سر پر ہے۔ ایک طرف پی پی اگر اکثریت سے اقلیت میں بدلی ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی پی پی کو سینٹ کی دوسری بڑی جماعت بننے سے نہیں روک سکی! تاہم ضرورت اب اس امر کی ہے کہ ایوان بالا کے لوگ جمہوریت اور ملکی مفادات سے بالا بالا نہ رہیں، قانون سازی میں ملک کا سوچیں کسی سیاسی شرک و بدعت کا نہیں!
آہ! پی پی والو! سچ یہی ہے کہ ’’اس سینٹ میں بھی ممنوع قرار پاگئے ہو اب… جس بزم میں حرف خاص تھے تم…‘‘ پنجاب میں اب بھی پی پی کا سیاسی دھند نے وہ حال کر رکھا ہے کہ جہاں پارٹیوں کے اندر حقیقی جمہوریت نایاب ہے ایسے ہی، پیاری پی پی پی! ذرا سمجھو، صرف بالا بالا نہ کھیلو، بھئی! تمہاری حرکتوں کے سبب پنجاب میںع
تمہیں آنکھیں نہیں ملتیں ہمیں چہرہ نہیں ملتا!