تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی
بیوروچیف فیصل آباد
جنرل (ر) پرویز مشرف ہماری عسکری اور سیاسی زندگی کا انتہائی متنازعہ کردار ہے جن پر ایک طرف پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام ہے اور دوسری طرف 3نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو ان کے عہدوں سے فارغ کرنے کا الزام ہے۔ انہوں نے پی سی او کے تحت سپریم کورٹ کے اس وقت کے ایک سینئر جج عبدالحمید ڈوگر کو ملک کا چیف جسٹس بنا کر مختلف ریٹائرڈ ججوں سمیت سپریم کورٹ کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں پر مشتمل ایک نئی سپریم کورٹ بنا کر اس سپریم کورٹ سے اپنے پی سی او کے نفاذ کو آئینی و قانونی تحفظ دلوایا اور 15دسمبر2007ء کو چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ چھوڑ کر سویلین صدر بن گئے اور 8جنوری 2008ء کو ملک میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا مگر 27دسمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کی سر براہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیاقت آباد پارک سے انتخابی جلسہ سے خطاب کے بعد باہر نکلتے وقت جب وہ کار کی چھت کو اوپر اٹھا کر عوام کے جوش و خروش کا ہاتھ اٹھا کر جواب دے رہی تھیں ‘ بم دھماکے اور گولیں کی بچھاڑ سے ہلاک ہو گئیں‘تو 2008ء کے انتخابات بعدازاں 18فروری کو منعقدہوئے اور ان انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی اور اس نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر ملک میں دونوں سیاسی جماعتوں کی مخلوط حکومت بنائی جس میں پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیراعظم بنے۔ وفاقی کا بینہ میں مسلم لیگ (ن) کے 18وزراء نے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا لیکن بعد میں مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کی غلطی کا احساس ہو گیا اور وہ حکومت سے الگ ہو کر اپوزیشن بنچوں پر آ گئی ‘ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ مسلم لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی کے پاس تھا ۔ جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی میں 6نومبر2007ء کے صدارتی الیکشن کے موقع پر ایک این آر او طے پا گیا تھا جس کے مطابق پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے بینک اکائونٹ جو منجمد ہو چکے تھے کھول دئیے گئے ‘ متعدد مقدمات ختم ہو گئے اور اس این آر او کے مطابق یہ طے پا یا تھا کہ صدر مملکت کا منصب بدستور پرویز مشرف کے پاس رہے گا جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بنائے جانے کیلئے مسلم لیگ (ق) سے مل کر ایک آئینی ترمیم کرائی جائے گی ‘ اگر محترمہ کو 27دسمبر 2007ء کو سانحہ سے دو چار نہ ہونا پڑتا اور الیکشن2008ء کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آ جا تی تو اس این آر او کے مطابق جنرل مشرف کی صدارت کا سلسلہ جاری رہتا ‘جنرل مشرف نے جب پیپلزپارٹی کے ساتھ این آر او کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان کی خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے وطن واپس آنے کی اجازت دے دی اور وہ 18نومبر2007ء کو ملک میں واپس آگئیں تو سعودی حکومت کے دبائو پر مسلم لیگ (ن) کے سر براہ خاندان کے افراد کیلئے بھی ان کی دس سالہ جلا وطنی ختم کر دی گئی تھی ‘ 18فروری2008ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی اور بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لئے دنیا بھر کی تمام ایجنسیوں کے نمائندوں کو بلا کر ان کو قومی خزانے سے کروڑوں روپے دینے میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا ساتھ دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی لیکن میاں نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف کا صدر مملکت کے عہدہ پر فائز رہنا بالکل بھی منظور نہیں تھا ‘ اس دوران جنرل پرویز مشرف سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کیلئے گریجوایشن کی شرط ختم کروالی گئی تھی اور اس شرط کے ختم ہونے کے باعث محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے شوہر آصف علی زرداری پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہونے کے علاوہ صدر مملکت ہونے کے اہل ہو گئے تھے ‘ لہذا انہوں نے میاں نواز شریف کے مشرف کو صدارت سے ہٹانے کا مطالبہ منظور کر لیا ‘ اس سے پہلے کہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں پرویز مشرف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر انہیں صدارت کے منصب سے چلتا ہونے کو کہتیں‘ جنرل پرویز مشرف نے صدر کے عہدہ سے استعفے دے دیا‘ پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں 21توپوں کی سلامی دے کر ایوان صدارت سے رخصت کیا ‘ بعدازاں آصف علی زرداری خود صدر مملکت منتخب ہو گئے مگر انہوں نے اور دیگر پارٹی لیڈروں نے ایک عرصہ تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات نہیں کروائیں بعد میں البتہ جنرل پرویز مشرف کا نام بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ایف آئی آر میں درج کرا دیا گیا ‘جبکہ الیکشن 2013ء سے پہلے جنرل پرویز مشرف اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بنا کر سیاست میں آ گئے ‘ پشاور ہائی کورٹ میں دائر ایک رٹ کے نتیجے میں وہ الیکشن2013ء کے لئے نا اہل ہو گئے ‘ ان کو چترال سے نا اہل قرار دلوانے کیلئے دائر کی گئی رٹ پٹیشن کے منظور ہو جانے سے وہ اسلام آباد کی نشست سے بھی ریٹائر ہو گئے ‘ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جاوید ہاشمی کا نام جنرل پرویز مشرف کے مقابلے کیلئے امیدوار کے طور پر سامنے تھا بعدازاں تحریک انصاف نے اسد عمر کو اپنا امیدوار نامزد کر دیا اور وہ یہ الیکشن جیت کر قومی اسمبلی کے رکن بن گئے ‘ الیکشن2013ء میں مسلم لیگ (ن) بر سر اقتدار آ گئی تو جنرل پرویز مشرف کے خلاف 3نومبر کے ایمرجنسی کے نفاذ اور سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اور بعض دوسرے ججوں کو ہائوس اریسٹ کرنے کا مقدمہ شروع کر دیا گیا ‘ یہ مقدمہ آئین کی دفعہ 6کے تحت ہائی کورٹ کے ایک سپیشل ٹربیونل کے پاس زیر سماعت رہا ‘ سپریم کورٹ کے موجودہ جج جسٹس فیصل سندھ ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج کی حیثیت سے اس ٹربیونل کے سر براہ تھے ‘ اس سے پہلے کہ اس مقدمہ میں جنرل پرویز مشرف کو کوئی سزا ہو جاتی اچانک انہیں بیماری کے باعث علاج کیلئے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ‘مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم وفاقی وزیر احسن اقبال نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کے مقدمہ کا ٹرائل شروع ہونے پر دعویٰ کیا تھا کہ اگر ان کی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے سلسلہ میں کسی دبائو کے تحت انہیں زیر سماعت مقدمے کے فیصلہ سے پہلے ملک سے نکل جانے کا موقع دیا تو وہ اپنی وزارت سے مستعفی ہو جائیں گے لیکن وہ آج بھی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں اور اب یہ بات کھل چکی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے دبائو پر ملک سے باہر جانے کا موقع دیا گیا تھا ‘ جنرل مشرف نے اپنی بیماری کا علاج مکمل ہونے پر ملک میں واپس آ کر بغاوت کے مقدمہ کا سامنا کرنے کا کہا تھا لیکن بعدازاں وہ مستقل دبئی میں رہائش پذیر ہو گئے ‘ اس وقت جبکہ سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے مقبول اور طاقتور سیاستدان میاں نواز شریف کو وزارت اعظمیٰ اور پارٹی صدارت دونوں سے نا اہل قرار دے دیا ہے اور ان کے خلاف نیب عدالت میں تین مختلف ریفرنسوں سے بننے والے مقدمات چل رہے ہیں جن میں ان کی بیٹی مریم نواز اور ان کے شوہر کپٹن (ر) صفدر بھی ساتھی ملزم ہیں ‘ملک کے سیاسی حلقوں کی طرف سے خصوصاً مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر موجودہ سپریم کورٹ فی الواقعی ‘طاقتور شخصیات کیخلاف مقدمات کے دلیرانہ فیصلے کر سکتی ہے تو وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو بھی ملک میں واپس لا کر ان کے خلاف درج آئین کی دفعہ6کے مقدمہ کی سماعت مکمل کرے ‘ عوامی حلقوں میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمہ کا ٹرائل کئے جانے کا بھی مطالبہ ہو رہا ہے اور 27دسمبر2017ء سے یہ مطالبہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 10ویں برسی کی تقریبات سے بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کو اپنی والدہ کا قاتل قرار دئیے جانے اور ’’قاتل مشرف‘‘کے نعرے لگوانے کے بعد سے اب پیپلز پارٹی جنرل پرویز مشرف کے ملک سے فرار کو پارٹی کی انتخابی مہم کا اہم نکتہ بنائے ہوئے ہے‘ ایک طرف مشرف کو آئین کی دفعہ6کے تحت بغاوت کے مقدمہ کا سامنا ہے اور وہ جب بھی ملک میں واپس آئے ‘ انہیں اس مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا اور دوسری طرف پیپلز پارٹی اب جنرل پرویز مشرف کے خلاف محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمہ کا ٹرائل چاہتی ہے ‘ جنرل پرویز مشرف کو جب بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو کا قاتل قرار دیا گیا تو انہوں نے اس کے جواب میں انکشاف کیا کہ محترمہ کو خود آصف علی زرداری نے قتل کروایا تھا ‘سابق صدر آصف علی زرداری پر اس قسم کا الزام محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی سابق پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان اور ان کے شوہر صفدر عباسی کی طرف سے بھی لگایا جا چکا ہے اور جنرل پرویز مشرف کا موقف ہے کہ انہیں تو بے نظیر بھٹو کے قتل کا نقصان پہنچا ہے کہ وہ ملک کی صدارت سے بھی ہٹا دئیے گئے جبکہ محترمہ کے قتل کا فائدہ سب سے زیادہ آصف علی زرداری کو پہنچا ہے کہ انہیں ملک کی ایک مقبول سیاسی جماعت کی سر براہی سمیت ملک کی صدارت تک کے مزے اٹھانے کے مواقع مل چکے ہیں ‘ جنرل پرویز مشرف الیکشن2018ء میں حصہ لینے کیلئے ملک میں واپس آنا چاہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خلاف دائر مقدمات کا سامنا کریں گے ‘ انہیں الیکشن 2018ء میں حصہ لینے کیلئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہو نے اور ملک میں نگران حکومت کے قیام کا انتظار ہے ‘ وہ خصوصاً وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو اپنا شدید دشمن قرار دیتے ہیں‘ احسن اقبال بھی سپریم کورٹ سے جنرل مشرف کو واپس لانے اور ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر چکے ہیں ‘مگر مسلم لیگی قیادت کہہ رہی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو واپس لانے کا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا جبکہ اپوزیشن کہتی رہی ہے کہ حکومت جنرل پرویز مشرف کو انٹر پول کے ذریعے واپس وطن لائے ‘ البتہ خصوصی عدالت کی طرف سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کیلئے جسٹس یحییٰ آفریدی کی سر براہی میں ایک سہ رکنی خصوصی عدالت تشکیل دے دی گئی ہے ‘ خصوصی عدالت اسلام آباد کی طرف سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف اس مقدمہ کی سماعت کے لئے 8مارچ 2018ء کی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے اور رجسٹرار خصوصی عدالت نے عدالت کی سکیورٹی اور جنرل(ر) پرویز مشرف کے عدالت میں پیش ہونے کی صورت میں ان کی سکیورٹی کیلئے اسلام آباد انتظامیہ کو خط لکھ دیا ہے ‘ سوال یہ ہے کہ کیا جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین سے بغاوت کے مقدمہ کی سماعت ہو سکے گی ‘ تاہم وفاقی حکومت نے اکرم شیخ ایڈووکیٹ کو اپنا وکیل مقرر کر دیا ہے اور اس امر کا امکان ہے کہ ملک میں موجودہ حکومت کے اختتام اور نگران حکومت کے قیام کے بعد جنرل (ر) پرویز مشرف خصوصی عدالت میں پیش ہو جائیں گے اور ان کی طرف سپریم کورٹ کے بنائے ہوئے کسی ٹربیونل کے بجائے خصوصی عدالت کے سہ رکنی ٹربیونل میں بغاوت کا مقدمہ لڑنا زیادہ آسان ہو گا ۔