پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اُن ادیبوں شاعروں صحافیوں اور نام نہاد دانشوروں کو بڑے بڑے عہدے مراتب ، انعامات، خطابات، صدارتی ایوارڈز اور کروڑوںروپوں سے نوازا گیا جو دن رات قصیدہ خوانی کرتے تھے۔ چاپلوسی، خوشامد، قصیدہ خوانی، رطب اللسانی کر کے جنہوں نے نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ بس راجدھانی آپکا مقدر ہے ا ور رہتی دنیا تک آپکی حکومت قائم و دائم رہے گی۔ آپ تاحیات صدر یا وزیراعظم یا وزیراعلیٰ رہیں گے اور اسکے بعد بلاول بھٹو، حمزہ شہباز ، مریم نواز برسرِ اقتدار آ جائینگے۔ آج صف زرداری کیلئے جیل تیار ہو چکی ہے۔ نواز شریف جیل میں ہیں اور شہباز شریف کی جیل یاترا قریب ہے۔ یہ سب ان خوشامدی اور درباری ادیبوں ، شاعروں، صحافیوں ، دانشوروں کی وجہ سے ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے حقدار اور معتبر ادباء و شعراء ، صحافی ا ور دانشوروں کو ان کا مقام دینے کے بجائے انہیں نوازا جو اسکے مستحق نہ تھے۔ آج اس کا انجام دنیا دیکھ رہی ہے۔ آپ کا اصلی حقیقی دوست وہی ہوتا ہے جو آپ کو سچ سے آگاہ رکھتا ہے۔ ’’سچ‘‘ ہمیشہ کنویں میں گرنے، حکومت گرنے اور تباہ ہونے سے بچا لیتا ہے۔ بڑا ادیب شاعر صحافی وہی ہوتا ہے جو حقائق لکھتا ہے۔ چاپلوسی کرنیوالا کبھی آپکا دوست نہیں ہوتا۔ موجودہ حکومت نے بڑی حد تک اردو اور ادب کو اہمیت دی ہے لیکن علم و ادب کو مزید قدر و منزلت کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں جب جنگ کی صورتحال بنی ہوئی تھی تو گورنر پنجاب چودھری سرور نے فضا بدلنے اور ڈر و خوف مٹانے کیلئے اپنی ادب نوازی کا ثبوت دیا۔ انہوں نے بھارت کو پیغام دیا کہ مودی تم الیکشن جیتنے کی خاطر جو جنگ کا ماحول بنا رہے ہو اور دھمکیاں دے رہے ہو تو یاد رکھو کہ ہم بہادر قوم ہیں۔ ہم تم جیسے ڈرپوک آدمی کی گیدڑ بھبکیوں سے نہیں ڈرتے۔ ہم اپنے معمول کے کام کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں میں خلل نہیں ڈالتے۔ گورنر پنجاب نے میری دو نئی کتابوں تنقیدی گرہیں اور کافر ادا کی تقریب پذیرائی کا زبردست اہتمام کیا اور خود اس ادبی علمی تقریب کی صدارت فرمائی۔ سیاست، فوج، ادب، صحافت، عدلیہ، علم و دانش ہر مکتبۂ فکر سے منتخب لوگ موجود تھے۔ گورنر پنجاب شام سے آٹھ بجے تک موجود رہے اور سب سے خوشدلی سے ملے۔ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ نریندر مودی نے مصنوعی جنگ کا سامان کر رکھا ہے۔نڈر اور باوقار قوم اپنے فرائض میں منہمک تھی۔ دُور دُور تک ڈر و خوف کا نام نہ تھا۔ ہال میں موجود لوگ جذبہ و ولولہ لیکر اُٹھے۔ تقریب کی صدارت گورنر پنجاب نے کی۔ مہمان خصوصی میں سابق چیف جسٹس شیخ ریاض احمد اور ہر دلعزیز اینکر سہیل وڑائچ تھے۔مقررین میں ڈاکٹر اختر شمار، سلمیٰ اعوان، آمنہ الفت، اختر عباس، گل نوخیز اختر شامل تھے۔ لیجنڈ سنگر عدیل برکی نے میری غزلیں اس قدر جذب و کیف کے عالم میں سنائیں کہ ہر طرف سے واہ واہ ہونے لگی۔ گورنر پنجاب کا خطاب پُرمغز تھا۔ انہوں نے پاک بھارت کشیدگی، مودی کی حماقتوں اور عمران خان کی حکمت عملیوں پر بھی بات کی۔ میری کتابوں پر اُنکی تقریر نے حاضرین محفل کو حیرتوں میں ڈال دیا کہ گورنر پنجاب کو ادب پر اتنا عبور ہے۔ گورنر پنجاب نے دونوں کتابوں کا مطالعہ کر کے گفتگو کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں کتابیں عہدِ حاضر کی نہایت اہم کتب ہیں۔ ڈاکٹر عارفہ کے افسانوں میں تازگی، صدارت اور نیا پن ہے۔ اُنکے قلم میں ایسی تاثیر ہے کہ لکھا ہوا دل میں اُتر جاتا ہے ڈاکٹر عارفہ کے استاد نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ان کا آئی کیو لیول استادوں سے آگے کا ہے۔ ڈاکٹر عارفہ کی ذہانت قابلیت اور کام کو بے نظیر بھٹو سمیت تمام لیجنڈز نے سراہا ہے۔ آج انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ’’ادب کا چمکتا ستارہ‘‘ ہیں۔ ڈاکٹر اختر شمار نے بھی بہت اثرپذیر تقریری کی اور ’’تنقیدی گرہیں‘‘ کا بھرپور جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ تنقیدی گرہیں نے ادب کی ساری گرہیں کھول دی ہیں۔ ڈاکٹر عارفہ نے بہت ہی مشکل اور پیچیدہ کام کر کے دکھایا ہے۔ اُنکی ادبی صحافتی علمی سماجی خدمات قابلِ قدر ہیں اور وہ ادب و صحافت کی لیلیٰ خالد ہیں۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ عارفہ میری کولیگ رہی ہیں۔ مجھے تو 1992ء میں اندازہ ہی نہیں تھا کہ میری سب سے جونیئر اور دھان پان سی یہ لڑکی اتنی تخلیقی قوتوں کی مالک ہو گی ۔عارفہ میں صلاحیتوں اور ذہانتوں کا ذخیرہ ہے۔ سابق چیف جسٹس شیخ ریاض احمد نے کہا کہ ڈاکٹر عارفہ کا تعلق صحافت اور علم و ادب سے ہے جہاں انہوں نے اپنے لیے محبتیں عزتیں اور وقار حاصل کیا ہے ۔ ق لیگ کی رہنما آمنہ الفت نے کہا کہ ’’کافر ادا‘‘ پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنی حساس ہیں اور انہیں سماجی رویوں، منافقتوں، چالوں کا کتنا گہرا ادراک ہے۔ نامور ادیبہ سفرنامہ نگار سلمیٰ اعوان نے کہا کہ عارفہ نے تنقیدی گرہیں کا جو دیباچہ لکھا ہے۔ اُسے پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص کتاب پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تقریب سے اختر عباس اور گل نوخیز اختر نے بھی خطاب کیا اور میری مزاح نگاری پر نہایت دلچسپ گفتگو کی۔ اس تقریب میں سلمیٰ اعوان نے گورنر پنجاب سے کہا کہ آج ڈاکٹر عارفہ راجا کے گھر میں آئی ہے تو راجا کو چاہئے کہ عارفہ کو خالی ہاتھ واپس نہ جانے دیں لیکن گورنر پنجاب نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے چائے پلا دی اوراپنی بذلہ سنجی سے بات اڑا دی۔ شیخ رشید کی صحبت میں جہاں عمران خان پٹھان ہو کر انتہائی کنجوس ہو گئے ہیں وہاں گورنر پنجاب نے بھی مثالی کنجوسی کا ثبوت دیا ہے …ع
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ گورنر رکھتے ہیں…
گورنر پنجاب کی ادب پروری، بذلہ سنجی، پذیرائی اور کنجوسی!!
Mar 05, 2019