مودی کا وار ڈاکٹرائن

دُنیا ان دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو لگی پاکستان مخالف بیماری کا (بچشم حیرت) مشاہدہ کر رہی ہے۔ دراصل اُس کا یہ جنگی فوبیا ، سیاسی مقاصد، یعنی اپریل مئی میں ہونے والے عام انتخابات جیتنے کے لیے ہے۔ اُسے لاحق جنگی مرض (جس نے جنون کی شکل اختیار کر لی ہے) بھارت کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ اس کا مقصد بھارتی لوک سبھا کے انتخابات بھاری اکثریت سے جیتنا ہیں۔ وہ اس کے لیے لائن آف کنٹرول پر سرحدی کشیدگی میں اضافہ اور انتہا پسند مسلم دشمن تنظیم آر ایس ایس کو استعمال کر رہا ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ مودی کو کس چیز نے انسانیت اور خصوصاً پاکستان کا شدید دشمن اور مسلمانوں کے خون کا پیاسا اور متشدد بنا دیا ہے۔ وہ کون سے عوامل تھے، جو اُسے آر ایس ایس کے رنگ میں رنگتے گئے۔ جو کہ انتہائی تشدد پسند اور دہشت گرد جماعت ہے، یہ وہی جماعت ہے جس نے اپنے باپو مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ گاندھی جی کا قاتل نتھورام گاڈسے ذات کا مرہٹہ اور سیاسی جماعت ہندو مہاسبھا کا رُکن تھا، وہ اس سے قبل آر ایس ایس کا رُکن رہ چکا تھا۔ گاڈسے نے اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران اعتراف کیا تھا کہ وہ گاندھی جی کی جان کے اس لیے درپے ہو گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی طرف داری کرتے تھے۔ وہ بھارت ماتا کو ٹکڑے کرنے (پاکستان) کے ذمہ دار تھے وغیرہ وغیرہ۔ آخر وہ پاکستان کو اس کے حصے کا پیسہ دینے پرکیوں راضی ہوئے؟
مودی نے آر ایس ایس کی گود میں ہوش سنبھالی۔ یعنی فقط آٹھ سال کا تھا، جب اس میں شامل ہوا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک کے دوران مکتی باہنی کی بھرپور عملی سپورٹ کی۔ مودی کی مسلم دشمنی اور انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ اس کی شادی (1968) صرف تین ماہ چلی۔ بیچاری جاشودا بن چمن لال مودی کو زمانے کے ستم سہنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا۔ اُس بے چاری نے کسی طرح میٹرک کر لیا اور سکول ٹیچر ہو گئی۔ اب وہ سرکاری پنشنر کی زندگی گزار رہی ہے۔ماں نے شادی کی تھی کہ بیوی آ جائے گی تو وہ آوارگی چھوڑ کر گھر گرہستی میں مشغول ہو جائے گا لیکن مودی کے چلن نے ماں ا ور بیوی کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔
1985ء میں آرایس ایس کی ہائی کمان نے مودی کی خدمات بی جے پی کے سپرد کردیں۔ وہ سولہ سال بعد 2001ء میں اس جماعت کا سیکرٹری جنرل اور اسی سال اسے گجرات کاوزیر اعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔ فروری 2002ء میں بھارت کے 14 ویں عام انتخابات سے دو سال پہلے گجرات میں مسلمانوں کے بدترین قتل عام کا المیہ پیش آیا۔ گجرات کے 59 ہندو‘ اجودھیا سے واپس آتے ہوئے پراسرار طور پر جل کر راکھ ہو گئے۔ کسی معتبر تحقیقات کے بغیر اس واقعہ کا گجرات کے مسلمانوں پر الزام لگا دیا گیا۔ چنانچہ انتہا پسند ہندوجماعتوں نے مسلمان کشی کی ہولناک مہم شروع کر دی۔ گجرات کے گودھرا ریلوے سٹیشن پر ایک ٹرین کو دروازے بند کر کے نذر آتش کر دیا گیا، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد زندہ جل گے، ان بدقسمت مسافروں میں 729 مسلمان تھے۔ بعد کے شواہد نے ثابت کر دیا کہ مودی ہی اس وحشیانہ مسلم سوزی کا ذمہ دار تھا، لیکن انتخابات کے دوران اُسے کلین چٹ دے دی گئی، اور مقامی پولیس نے شہادتوں کو ضائع کردیا۔ تاہم سپریم کورٹ نے سانحہ گودھرا کی تفتیش کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی لیکن یہ ٹیم آر ایس ایس سے اس قدر خائف ہوئی کہ کارروائی روک دی گئی۔
آر ایس ایس 1925 ء میں قائم ہوئی۔ تب سے مودی تک اس کی اقلیت اور خصوصاً مسلم دشمن ذہنیت میں ذرہ فرق نہیں آیا۔ آر ایس ایس کی دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات میں گاندھی جی کا قتل، ایک ہندو لڑکی سے محض بات کرنے کی پاداش کرنے میں مسلم نوجوان پر بجرنگ دل کے ارکان کا بے رحمانہ تشدد، بابری مسجد کی شہادت (جس میں آر ایس ایس کے علاوہ بی جے پی ، شیوسینا اور وشوا ہندو پریشد کے دہشت گردوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا)ریاست گجرات میں مسلمانوں کے خلاف فسادات۔ سمجھوتہ ایکسپریس کو دھماکہ سے اڑانا، مالے گائوں، اجمیر اور مکہ مسجد دھماکے وغیرہ وغیرہ۔ ، سمجھوتہ ایکسپریس کا سانحہ فروری 2007ء کو پیش آیا۔ اسے اڑانے کا منصوبہ آر ایس ایس نے ہی بنایا اس تنظیم کے انتہا پسند لیڈر سوامی آسیم نند نے جس کے مودی کی بی جے پی کے ساتھ گہرے تعلقات تھے، منصوبے میں شرکت کا اعتراف کرلیا تھا۔ اس نے عدالت کو آر ایس ایس کے دیگر ارکان کے نام بھی بتائے تھے جو اس وحشیانہ کارروائی میں شریک تھے۔ اس نے یہاں تک بتایا کہ جنرل جوگندر جسونت سنگھ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جنرل سنگھ ستمبر 2007ء تک بھارت کے آرمی چیف تھے۔ نہ صرف مذکورہ جنرل بلکہ لیفٹننٹ کرنل شری کانت پروہت بھی مہاراشٹر کے ضلع ناسک کے مسلمان اکثریتی شہرمالے گائوں کی جامع مسجد کے دھماکے میں ملوث تھا بلکہ سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گردی سے بھی اس کا تعلق بتایا جاتا ہے۔ دراصل سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ حکومتی پشت پناہی سے ہوا مگر اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا۔
ان حملوں میں لیفٹیننٹ کرنل شری کانٹ پروہت اور دوسروں کی شرکت کی نشان دہی ، مہاراشٹر انٹی ٹیرر ازم سکواڈ کے چیف ہیمنت کر کرے نے کی، اس کی تفتیش کے مطابق سمجھوتہ ایکسپریس کواڑانے کے لیے استعمال ہونے والا 60 کلوگرام بارود سرکاری اسلحہ خانے سے فراہم کیا گیا تھا اور یہ کہ آر ایس ایس اور را کی تمام کارروائیوں کی نگرانی بھی کرنل پروہت ہی کرتا رہا ۔ ہیمنت کر کرے کی تحقیقات پر وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور بی جے پی کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ایل کے ایڈوانی بہت مشتعل ہوئے اور طیش میں آ کر (حقائق کو بے نقاب کرنے کے جرم میں) کرکرے کو غداری کا ملزم قرار دیا جس کی سزا موت ہے ، بدقسمتی سے را نے ممبئی حملوں (27 نومبر 2008 ) کے دوران ہیمنت کر کرے کا پتہ ہی صاف کر دیا گیا خودساختہ ممبئی حملوں کا ایک مقصد کرکرے کو، صفحۂ ہستی سے مٹانا تھا۔ یہ ہیں آر ایس ایس کے مودی کے بعض تاریک اور مسلم دشمن کارنامے۔
مودی، بھارتی عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کا نعرہ لگا کر، اقتدار میں آیا تھا لیکن اس کی حکومت میں جنتا کے حالات مزید بدتر ہوئے ہیں۔ مودی نے سیاسی مخالفین کودبانے یا کچلنے اور اپنے آپ کو بھارت کا ’’جگا‘‘ بنانے کے لیے تمام توانائیاں اور قوتیں بی جے پی کے انتہا پسند بازو آر ایس ایس کو مضبوط بنانے کے لیے وقف کر دیں۔ مودی مسلمانوں اور اقلیتوں کوکچلنے کے لیے آر ایس ایس کو تھانے کی سطح پر منظم کرنے کے بعد اب میڈیا کو خوفزدہ کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔ پولیس اب آر ایس ایس سے ہدایات لیتی ہے۔ مودی نے پہلے اپنے شہریوں کو فتح کیا پھر بڑے بڑے صنعتکاروں اور بزنس مینوں کو ’’تھلے‘‘ لگا کر ’’مودی وار ڈاکٹرائن‘‘ کا ایجنڈہ مکمل کیا۔ دوسری مودی وار ڈاکٹر ائن کی ابتدا اس طرح کی کہ بے گناہ کشمیریوں کو کچلنے اور کشمیر کی جغرافیائی پوزیشن کوتبدیل کرنے کا کام، آر ایس ایس کی تحویل میں دے دیا تاکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے اور اُن کی مدد کے لیے تقریباً 8 لاکھ فوج مقبوضہ وادی پر مسلط کر دی ۔ اس مودی ڈاکٹرائن میں پاکستان کو لائن آف کنٹرول میں الجھائے رکھنا بھی شامل ہے۔ چنانچہ شائد ہی کوئی دن خالی جاتا ہو، جب سرحد پر فائرنگ نہ ہوتی ہو اور بے گناہ پاکستانی اس کا نشانہ نہ بنتے ہوں۔ بلوچستان میں مداخلت اس کی ڈاکٹرائن کا تیسرا مرحلہ ہے۔
مودی نازی ہٹلر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آر ایس ایس کی مدد سے بھارت کا ’’بے تاج بادشاہ‘‘ بننا چاہتا ہے۔ ڈاکٹرائن کے تیسرے مرحلے میں پاکستان کیخلاف جارحیت بھی شامل ہے۔ لیکن پاکستان بھی چین کی طرح لوہے کا چنا ثابت ہوا ہے، تاہم اب مودی کا یہ سارا کھیل بے نقاب ہو چکا ہے ، اگربھارتی عوام نے آئندہ عام انتخابات میں اسے ووٹ نہ دئیے تو اسے اپنے منصوبوں میں ناکامی سے د وچار ہونا پڑے گا۔ اسی طرح پاکستان اور بھارت کے عوام کے خلاف اس کی غیر دانشمندانہ حرکات اسے ناکامی کا منہ دکھا سکتی ہیں۔ صبر کا دامن اب اس کے (مودی) ہاتھ سے چھوٹتا جا رہا ہے۔ اس کی پے درپے غلطیاں اسے حسرت ناک انجام سے دوچار کر کے رہیں گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت کا شکاری اور اس کی آمرانہ خواہشات اُس کے اپنے عوام کے ہاتھوں شکار ہونے جا رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے خلاف معاندانہ کارروائیوںکا ایک مذموم مقصد یہ بھی یہ ہو سکتا ہے کہ ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ بھارتی آئینی کا آرٹیکل (2) 83 ایمرجنسی سے متعلق ہے۔ اس سے پہلے اندرا گاندھی بھی اپنے آئین کی اسی دفعہ کو آزما چکی ہیں۔ (تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ایمرجنسی کا نفاذ، نافذ کرنے کے خلاف منحوس ثابت ہوتا ہے، اول تو جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ورنہ اقتدار سے محرومی یقینی ہے) لگ رہا ہے کہ مودی کا کھیل بھی ختم ہونے جا رہا ہے۔ سیاسی امور پر گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔اب وہ سیاسی ساکھ کی بحالی کے لیے پاکستان دشمن مائنڈ سیٹ کا سہارا لینے پرمجبور ہو گیا ہے مگر وہ اس طرح جنوبی ایشیا کا امن تباہ کرنے کے درپے ہے۔ اُس نے آر ایس ایس کی مدد سے جس وار ڈاکٹرائن کے نفاذ کا منصوبہ بنایا، وہ جلد یا بدیر ناکام ہونے والا ہے، اگر عالمی برادری اور بھارت کے عوام نے مودی کی راہ نہ روکی، تو جنوبی ایشیاء کے امن کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دُنیا کو اسے کشمیر میں مظالم اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پاداش میں، عالمی عدالت انصاف (ہیگ) میں بطور مجرم کھڑا کرنا چاہئے۔ پردھان منتری مودی اور آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کو جان لینا چاہئے، کہ پاکستان کسی بھی مہم جوئی پر بھارت کے ’’کُھنے سینکنے‘‘ کی اہلیت رکھتا ہے۔ (ترجمہ و تلخیص حفیظ الرحمن قریشی)

ای پیپر دی نیشن