کشیدگی ختم کرانے کیلئے عالمی قیادتوں کی کوششیں اور بھارت کا او آئی سی کانفرنس کی قرارداد قبول کرنے سے انکار
پاکستان بھارت کشیدگی ختم کرانے کیلئے عالمی قیادتوں اور عالمی اداروں کی سنجیدہ کوششوں کے باوجود بھارت کی مودی سرکار کے جنگی جنون‘ اشتعال انگیزیوں اور جارحانہ اقدامات میں کمی نہیں ہوسکی۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے او آئی سی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو مکمل طور پر اندرونی معاملہ قرار دیا اور کہا کہ ہم جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہونے کے اپنے موقف کی ہی تجدید کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں بھارت کی وزارت خارجہ امور کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ کشمیر قطعی طور پر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے جس کے بارے میں او آئی سی کانفرنس میں منظور کی گئی قرارداد ہمیں منظور نہیں۔ او آئی سی کانفرنس کی اس قرارداد میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد اور یقینی بنانے پر زور دیا گیاہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں پیش آنیوالے حالیہ مظالم پر پاکستان کی پیش کی گئی ایک قرارداد بھی او آئی سی کانفرنس میں منظور کی گئی ہے جس میں بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے بھارت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ اعلان کیا ہے کہ انکی حکومت پاکستان میں کئے گئے فضائی حملوں کے کوئی شواہد پیش نہیں کریگی۔ انکے بقول کوئی بھی سکیورٹی ادارہ اپنے اپریشن کی تفصیلات ظاہر نہیں کرتا۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کو بھارت میں عام انتخابات کے ساتھ جوڑنے اور اس میں مقامی سیاست کے ملوث ہونے کے تاثر کو بھی مسترد کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی پاکستان بھارت شروع دن کی کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی کا جواز نکالنے کیلئے بھارت نے کشمیر کا تنازعہ خود پیدا کیا جس نے تقسیم ہند کے فارمولے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے خودمختار ریاست جموں و کشمیر کا مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے ناطے پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اسکے برعکس جموں و کشمیر میں اپنی افواج داخل کرکے اسکے بڑے حصے پر جبراً اپنا تسلط جمالیا اور پھر اپنے ہی پیدا کئے گئے اس تنازعہ کو لے کر جواہر لال نہرو اقوام متحدہ چلے گئے۔ کشمیری عوام کو اپنی ریاست پر بھارتی تسلط ہرگز قبول نہیں تھا جنہوں نے اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرلیا ہوا تھا اس لئے انہوں نے جموں و کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے کیلئے اپنی تحریک کا آغاز کر دیا اور بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر ہوگئے۔ اقوام متحدہ نے اس تحریک کے تناظر میں ہی کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی مگر بھارت اس حوالے سے منظور کی گئی یواین قراردادوں سے ہی منحرف ہو گیا اور اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ طور پر اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔
بھارت کی یہ بدنیتی درحقیقت پاکستان کو کمزور اور بے بس کرنے کی بدنیتی تھی کیونکہ بھارتی لیڈروں نے ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے پاکستان کی تشکیل دل سے قبول ہی نہیں کی تھی جو پاکستان کی تشکیل کو اپنے اکھنڈ بھارت کے منصوبے اور توسیع پسندانہ عزائم پر ضرب کاری سمجھتے تھے۔ اسی بنیاد پر ہندو لیڈران ہٹ دھرمی اور جارحیت کی راہ پر آئے اور پاکستان کیخلاف جنگی جنون کو ابھارنا شروع کیا۔ اس جنون میں بھارت نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں‘ اسے سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا اور پھر باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا۔ اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے والے انتہاء پسند ہندوئوں کا یہ جنون چونکہ پاکستان کی سلامتی ختم کرنے کا جنون ہے اس لئے عقل و خرد کی کوئی بات انکی بُدھی سے چھو کر بھی نہیں جاتی چنانچہ وہ نام نہاد سیکولر ریاست کو متعصب ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کیلئے علاقائی اور عالمی امن کی تباہی کے راستے پر بگٹٹ دوڑے چلے جارہے ہیں۔ اس میں وہ کشمیری عوام اور پاکستان کو سدِراہ سمجھتے ہیں جن سے خلاصی پانے کے ایجنڈے کے تحت ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اور کنٹرول لائن پر ننگی جارحیت کا سلسلہ شروع کیا جس میں ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ مودی سرکار کے دور میں شدت پیدا ہوئی کیونکہ وہ اپنی حریف کانگرس آئی پر سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کیلئے پاکستان کو خدانخواستہ صفحۂ ہستی سے مٹانے کا کریڈٹ لینے کی جلدی میں نظر آتی ہے۔
اپنے اس ایجنڈے کی بنیاد پر مودی سرکار کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور خیرسگالی کے جذبات کا اظہار سوٹ ہی نہیں کرتا چنانچہ اسکی جانب سے ہر وہ حربہ اختیار کیا جاتا ہے جو پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے اور اس سے وہ پاکستان کی سلامتی پر حملہ آور ہونے کا جواز نکال سکے۔ اسی تناظر میں بھارت نے جہاد کشمیر کو دہشت گردی کے کھاتے میں ڈالا اور پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت پر اسے دراندازی کا مرتکب اور دہشت گردوں کا سرپرست قرار دینا شروع کیا جبکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت نے نہ صرف یواین قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز کیا بلکہ یہ قراردادیں غیرمؤثر بنانے کیلئے 1972ء میں شملہ معاہدہ کے تحت پاکستان پر کشمیر سمیت کوئی بھی باہمی تنازعہ کسی عالمی یا علاقائی فورم پر لے جانے پر قدغن عائد کردی اور پھر کشمیر پر دوطرفہ مذاکرات کی بھی کبھی نوبت نہیں آنے دی۔
کشمیری عوام نے تو ہر قسم کے حالات کا پامردی اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے بھارتی فوجوں کی مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے اور سات دہائیوں پر محیط اپنی جدوجہد کے دوران اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں جبکہ پاکستان بھی کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے کیلئے اپنے اصولی موقف پر قائم ہے کیونکہ کشمیریوںکی جدوجہد درحقیقت تکمیل و استحکام پاکستان کی جدوجہد ہے جبکہ بھارت ہر صورت جموں و کشمیر پر اپنا تسلط مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ اگر بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مخلص ہوتا تو اس پر اٹوٹ انگ کا راگ الاپنے کی بجائے یواین قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیتا مگر اسے استصواب اس لئے گوارا نہیں کہ کشمیریوں نے خود کو بھارت کا حصہ بنانا کبھی قبول ہی نہیں کیا۔ اگر وہ کٹھ پتلی اسمبلی کے ہر انتخاب کا بائیکاٹ کرتے ہیں اور کشمیر کو خودمختار ریاست بنانے کی تحریص و ترغیب پر مبنی کوئی بھارتی پیشکش انہوں نے آج تک قبول نہیں کی تو یہ درحقیقت کشمیر پر اٹوٹ انگ والی بھارتی ہٹ دھرمی قبول نہ کرنے کا ہی کھلا اعلان ہے۔ بھارت اسی سے زچ ہو کر کشمیریوں پر مظالم کے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کرتا ہے جبکہ کشمیری نوجوانوں نے بھی اس کا توڑ بھارت کیخلاف سوشل میڈیا پر متحرک ہو کر نکالا ہے اور پوری دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ بھارت غاصب ہے جو کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتا اور پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے۔ 2008ء کے ممبئی حملوں سے پلوامہ حملے تک غاصب بھارت نے کشمیریوں کو دہشت گرد اور پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی بنیاد پر مودی سرکار نے پلوامہ حملہ کے بعد پاکستان کیخلاف جنگی جنون کو بھڑکایا اور اسکی سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ وزیراعظم عمران خان کو اپنے پالیسی بیان کے ذریعے بھارت کو باور کرانا پڑا کہ وہ حملہ کریگا تو ہماری جانب سے بلاتوقف اس کا فوری اور بھرپور جواب دیا جائیگا۔ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے بھارت کو مذاکرات اور پلوامہ واقعہ کی تحقیقات کی بھی پیشکش کی جو مودی سرکار نے رعونت کے ساتھ مسترد کر دی اور پھر جنگی جنون میں پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی سے بھی گریز نہ کیا جبکہ اس ناکام دراندازی پر بھی پاکستان کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کا بے سروپا پراپیگنڈہ کیا گیا چنانچہ پاک فضائیہ نے اگلے ہی روز دو بھارتی جنگی جہاز گرا کر اور ایک پائلٹ کو زندہ گرفتار کرکے بھارتی گیدڑ بھبکیوں اور دعوئوں کا مسکت جواب دے دیا۔ اس پر بھارتی ہذیانی کیفیت کا تو توڑ ہوگیا مگر مودی سرکار کی جنونیت میں کوئی کمی نہیں آئی چنانچہ دو ایٹمی ممالک کے ایک دوسرے کے مدمقابل آنے پر عالمی قیادتوں اور اداروں کو ممکنہ ایٹمی جنگ سے بچنے کیلئے پاکستان بھارت کشیدگی ختم کرانے کی فکرلاحق ہوئی۔ پاکستان نے تو امن کے داعی ہونے کی حیثیت سے خود بھی بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی اور متعدد ممالک کے حکمرانوں اور عالمی و علاقائی اداروں کو بھی اس معاملہ میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی جس پر مثبت پیش رفت یہ سامنے آئی کہ امریکی صدر ٹرمپ‘ یواین سیکرٹری جنرل انتونیوگوئٹرس‘ ترک صدر اردوان کے علاوہ چین‘ روس اور یورپی یونین کی جانب سے بھی پاکستان اور بھارت میں ثالثی کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی گئی جبکہ او آئی سی کانفرنس نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط اور مظالم کی بھی مذمت کردی جو اس کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ کی شمولیت کے باوجود پاکستان کی واضح حمایت کا عندیہ تھا۔ گزشتہ روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بھی اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان کے ٹیلی فونک رابطے پر پاکستان اور بھارت پر باہمی کشیدگی کم کرنے پر زور دیا ہے جبکہ امیر قطر شیخ تمیم بن حماد نے خود وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے پاکستان بھارت کشیدگی میں کمی کیلئے ہرممکن تعاون کی پیشکش کی ہے تاہم اس کا دارومدار بھارت کی مودی سرکار کی نیک نیتی پر ہے جو امن کی راہ پر چلنے کو تیار ہی نہیں اور اس نے مقبوضہ کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پر انسانی قتل عام جاری رکھا ہوا ہے چنانچہ گزشتہ روز بھی بھارتی فوجوں نے ہندواڑہ کا محاصر کرکے نہتے کشمیریوں پر فائر کھولا جس سے تین کشمیری شہید اور کئی مکان تباہ ہوگئے۔
اگرچہ کنٹرول لائن پر گزشتہ روز صورتحال نسبتاً پرامن رہی ہے مگر بھارتی ہٹ دھرمی کسی وقت بھی کوئی گل کھلا سکتی ہے اس لئے عساکر پاکستان کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہمہ وقت مستعد و چوکس ہیں۔ اگر عالمی قیادتوں کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی مقصود ہے تو انہیں یواین قراردادوں کی روشنی میں بھارت سے بہرصورت مسئلہ کشمیر حل کرانا ہوگا اور دوسری صورت میں بھارت کو خود سبق سکھانا ہوگا۔ پاکستان کے پاس تو اپنے دفاع کیلئے آخری چارۂ کار کے طور پر اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کا راستہ ہی بچے گا۔ اس وقت اصل ضرورت بھارت کے جنونی عزائم کے آگے بند باندھنے کی ہے جس کیلئے عالمی برادری سرگرم عمل ہے۔