اسلام آباد ( خصوصی رپورٹر)سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے آئی نائن انڈسٹریل ایریا میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کوآج طلب کرلیاہے عدالت نے اسلام آباد کو آلودگی سے پاک کرنے کا روڈ میپ بھی طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین سی ڈی اے، میئر اسلام آباد، ڈی جی ماحولیاتی ایجنسی کے ساتھ مل کرمسئلہ کا حل نکالیں، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت ریمارکس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ماربل انڈسٹری لوگوں کو بیمار کررہی ہے ۔اسلام آباد میں پہاڑ کاٹے جارہے ہیں،محکمہ ماحولیات کے لوگ اپنے ہاتھ گرم کرکے واپس آجاتے ہیں، اس دوران ڈی جی ماحولیات کا کہنا تھا کہ آئی نائن میں انڈسٹری بند اور وہاں پر وئیر ہاوس بن چکے ہیں چف جسٹس نے کہاکہ سی ڈی اے اور ایم سی آئی کچھ کرنے کو تیار نہیں، رات کو ڈرائیور کے ساتھ اسلام آباد کا چکر لگاتا ہوں تو بڑی خوشبو آتی ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر آپ کو گند اور کوڑا ملے گا، اسلام آباد میں لاقانونیت اور بیڈگورننس ہے، ایم سی آئی کو ملنے والا سارا پیسہ تنخواہوں میں چلا جاتا ہے،ایم سی آئی اور سی ڈی اے ملازمین نظر نہیں آتے، لگتا ہے گھوسٹ ملازمین بھرتی کیے ہوئے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ سی ڈی اے کا چپڑاسی سرکاری زمینوں پر قبضہ کرادیتا ہے، سی ڈی اے سپریم کورٹ کے احکامات نہیں مانتا،سی ڈی اے کو معلوم نہیں کس چیز سے کھیل رہا ہے، عدلیہ ریاست کا تیسرا ستون اور سی ڈی اے ایک چھوٹاسا ادارہ ہے ۔ عدالت ایک حکم پاس کرے تو سی ڈی اے بند اور ملازمین فارغ ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے نے آئین کے تحت نہیں چلنا تو قوم کو اس کی ضرورت نہیں۔سب نے اپنے کام سے سمجھوتہ کرلیا، پورے ملک کا یہ ہی حال ہے۔کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیاکہ شہر کے درمیان میں آپکا انڈسٹریل ایریا آگیااسلام آباد سٹی کے اندر انڈسٹریل زون بنانے کی اجازت کس نے دی؟ سی ڈی اے کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ماسٹر پلان کا حصہ تھا، چیف جسٹس نے کہاکہ میں نے سنا ہے اسلام آباد اور کینبرا ایک ساتھ ڈیزائن ہوئے، کینبرا جس ڈیزائن سے بنا وہی موجود ہے، ہم نے ایک طرف کے پی کے ملا لیا اور دوسری طرف لاہور جا رہے ہیں، ہم آئی سی ٹی اور سی ڈی اے کو ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے،انڈسٹریل ایریا میں بفر زون کو ختم کر دیا گیا، اس بفر زون میں رہنے والے کون ہیں، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ گرین بیلٹ بھی ختم ہو گئی ہیںانڈسٹری کے ریگولیٹر کہاں ہیں، انڈسٹری کی نمائندگی کون کر رہا ہے، اس دوران اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا نمائندہ عدالت میں پیش ہوا اور موقف اپنایاکہ ہم نے سی ڈی اے کو نئے انڈسٹریل زون سے متعلق بار بار درخواست دی ہے، ،آئی سترہ میں سی ڈی اے انڈسٹریل ایریا بنانے جا رہا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ دس سال بعد آئی سترہ بھی شہر کے درمیان آجائے گا، ٹیکسٹائل طرز کی انڈسٹری اسلام آباد میں بنا لیں لیکن اسٹیل کی فیکٹریاں گوجرانوالہ یا پشاور لے جائیں، ڈی جی ماحولیاتی تحفظ فرزانہ الطاف نے پیش ہو ئیں تو چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کا ادارہ بھی کام نہیں کر رہا ہے، آپ کے انسپکٹر بھی جا کر اپنا ہاتھ گرم کر کے آجاتے ہونگے، ڈی جی ماحولیات کا کہنا تھا کہ ہمارے ادارے کے پاس تو ایک انسپکٹر تک نہیں، پندرہ نومبر 2018 کے عدالتی حکم پر عملدرآمد کرا رہے ہیں،اسلام آباد میں انڈسٹری کی جگہ وئر ہاوسز بن رہے ہیں،، اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری پوری قوم ہی دوکاندار بن گئی ہے، سب دوکانوں میں اسمگلنگ اور باہر کا مال بھج رہے ہیں، پورے ملک میں دوکانیں ہی دوکانیں نظر آرہی ہیں، صنعت کار بیوپاری بن گئے ہیں، ہمارے ملک میں لارنس پور میں دنیا کا بہترین اون کا کپڑا بنتا تھا جو بند ہوگیا، ہمارے پاس ہاتھ سے کام کرنے والے قابل لوگ تھے پتہ نہیں ان کا کیا بنا، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نہیں چاہتے کہ صنعتیں بند ہو جائیں،قانون پر مکمل عملدرآمد کرائیںاسلام آباد میں اسٹیل مل کی صنعت لگنا میری سمجھ سے باہر ہے، اگر اسلام آباد کے ماسٹر پلان کو بدلنے کی اجازت دی تو ایک ہفتے میں مارگلہ کی پہاڑیاں غائب ہوجائیں گی، بلیو ایریا میں ہر جگہ کوڑا کرکٹ نظر آتا ہے،اسلام آباد کا مئیر یہاں کم لندن میں زیادہ ہوتا ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں مئیر کا پورا ہفتے کا شیڈول بتا دیا تھا۔عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کو آلودگی سے پاک کرنے کا روڈ میپ سمیت طلب کرتے ہوئے سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی۔: