راجہ محمد منیر خان
اسلام آباد کے پی کے ہاوس میں ہونے والی ڈویلپمنٹ پاٹنر کے ساتھ منعقد کیے گئے ہائی لیول ڈائیلاگ منعقد ہوئے جس میں پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کے عہدیدار شریک ہوئے ڈائیلاگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ قبائلی علاقوں کا کے پی کے میں انضمام ہماری حکومت کے لیے اہم سنگ میل ہے ہم صوبہ بھر کے لئے سٹین ایبل ڈویلپمنٹ سٹریجٹی (ایس۔ڈی۔ایس)اور ضم کیے اضلاع کیلئے دس سالہ جامع حکمت عملی یعنی (ٹی۔ ڈی۔ایس)تشکیل دی ہے تاکہ لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری آئے اور ضم کیے اضلاع کی پسماندگی کا ازالہ کر کے اسے ملک کے دیگر حصوں کے برابر لایا جاسکے جس سلسلے میں پہلے سال میں ہم نے 83 ارب روپے سے ترجیحی منصوبے شروع کئے ہیں جس میں تمام شعبوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ تقریب میں (ڈی۔ایف۔آئی۔ ڈی) یورپین یونین اقوام متحدہ ایشین ڈیویلپنمٹ بینک ۔یوایس ایڈ جی آئی زیڈ اور جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کے نمائندے شریک تھے ۔ڈائیلاگ میں شرکت کرنے والوں نے ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لئے اور صوبہ کے پی کے کی ترقی کے لئے اپنی اپنی رائے دی اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی تجاویز پر کس حد تک عمل کرتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ جتنے ادارے اس ڈائیلاگ میں موجود تھے اگر وہ سنجیدگی سے کام کریں تو یقیناً صوبہ کی تعمیروترقی ممکن ہو سکتی ہے یہ ادارے اربوں روپے کی سکیمیں بناتے ہیں لیکن موقع پر کروڑوں روپے بھی نہیں لگاتے ہیں بلکہ اپنی عیاشیوں پر لگا دیتے ہیں مذکورہ منصوبے بھی اسی طرح ہونگے جس طرح پہلے ہوئے ہیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سات سال مکمل ہونے کو ہیں اور ان سات سالوں میں ان کا ایسا کوئی قابل قدر منصوبہ نظر نہیں آتا ہے جس کا ان کو کریڈٹ جا سکے۔ بی آر ٹی منصوبہ کی مثال سامنے ہے ایسی کارکردگی کو سامنے رکھا جائے تو یہ ڈائیلاگ بھی اسی طرح کے کاغذی ترقی کے منصوبے ہوںگے جس طرح پہلے وہ میڈیا کے ذریعے عوام کو لالی پاپ دیتے نظر آتے ہیں۔ اگر ان کی حکومتی کارکردگی پر روشنی ڈالی جائے تو وہ صفر ہے اس میں کوئی شق نہیں ہے کہ صوبہ میں ضم شدہ اضلاع حقیقی معنوں میں احساس محرومی کا شکار ہیں ان کو صوبے کے دیگر اضلاع کے برابر لانے میں وقت لگے گا لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ قبائلی علاقے صوبے کا حصہ نہیں تھے وفاق میں ان کی بھرپور نمائندگی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود تھی تو انہوں نے ان علاقوں کی طرف توجہ کیوں نہیں دی ان کے احتساب کی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ اس وقت کے گورنر اس کی ذمہ دار ہیں۔ گورنر سردارمہتاب احمد خان نے اپنی گورنر شپ کے دوران قبائلی علاقوں کی طرف بھرپور توجہ دی ۔تعلیمی اداروں سمیت تعمیروترقی کے متعدد منصوبوں پر کام کیے اور قبائلی کی تعمیروترقی پر توجہ دی تھی جب قبائلی علاقوں کی تعمیروترقی میں رکاوٹ ڈالی گئی تو انہوں نے گورنر شپ چھوڑ دی ۔ ایسے حالات میں جمہوریت کیسے مضبوط ہو گی جب تک سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں وہاں بھی ڈکٹیٹر شپ ہے۔ اس لئے وہ ڈکٹیٹروں کے آلہ کار بن جاتے ہیں سیاسی جماعتوں کے قائدین اقتدار کی لالچ میں اپنا وجود نہیں قائم رکھ سکے ہیں جس سے وہ ان کے آگے بند باندھ سکتے تو جمہوری سسٹم مضبوط ہو سکتا تھا ۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے قائدین اقتدار کی لالچ سے نکل کرجمہوری سسٹم کو مضبوط کر سکتے ہیں اس کے لئے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو قربانی دینے کی ضرورت ہے اور ملک پاکستان کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔
صوبہ کے پی کے میں مسلم لیگ ن کی تنظیم سازی کا عمل جاری ہے مسلم لیگ ن میں گروپ بندی کے باعث صوبائی قیادت مشکلات سے دوچار ہے صوبے کے دیگر اضلاع میں تقریبا تنظیم سازی کا عمل مکمل ہو چکا ہے جبکہ ابھی تک ہزارہ ڈویژن اور خاص کر ضلع ایبٹ آباد صوبائی قیادت ابھی تک ضلع ایبٹ آباد میں تنظیم سازی نہیں کر سکی ہے ۔ایبٹ آباد میں سردارمہتاب احمد خان گروپ اور مرتضٰی جاوید عباسی گروپ آمنے سامنے کھڑے ہیں جس سے مسلم لیگ ن کو نہ صرف ایبٹ آباد میں مشکلات پیش آرہی ہیں بلکہ ہزارہ ڈویژن میں نقصان ہو رہا ہے۔ ہزارہ ڈویژن مسلم لیگ کا گڑھ ہوتا تھا جو اب مسلم لیگ کا گڑھا بنتا جا ریا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے یہ سوالیہ نشان ہے البتہ مسلم لیگ کے نظریاتی ساتھی جو حقیقی مسلم لیگی ہیں وہ مسلم لیگ کی گروپ بندی کے باعث کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے جس سے مسلم لیگ ن کو نقصان ہو رہا ہے ایم پی اے سرار اونگ زیب نلوٹھ جو مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر تھے انہوں نے اپنی صدارت کے دوران ضلع میں مسلم لیگ کو مضبوط بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا اب ان کو مسلم لیگ ن یوتھ وینگ کا صوبائی صدربنا دیا ہے ان کے یوتھ ونگ کا صوبائی صدربنے کے بعدضلع ایبٹ آباد میں ضلعی صدارت کیلئے نامزد ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کی ضلعی صدارت کی جنگ میں مزید تیزی آگئی ہے۔مختلف گروپ صدارت کا عہدہ اپنے نام کرنے کیلے متحرک ہیں۔ضلع ایبٹ کی صدارت کیلے رسہ کشی جاری۔رائے ونڈ لاہور میں کیپٹن صفدر اور ایبٹ آباد کے بعض لیگی رہنماؤں کی بیٹھک کے باوجود ابھی تک کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ مسلم لیگ ن ضلع ایبٹ اباد کی صدارت کیلے رابطوں صلاح و مشورے اور لابنگ کا سلسلہ مزید تیز ہو گیا ہے صدارت کے لیے سابق امیدوران قومی و صوباہی اسمبلی وسابق ممبران اسمبلی اس دوڑ میں شامل ہیں لیکن مسلم لیگ ن کے آپس میں اختلافات کے باعث صوبائی قیادت کو فیصلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایبٹ آباد ضلع میں قیادت میں اختلافات کے باعث الیکشن 2018 میں مسلم لیگ ن کو شدید نقصان ہوا ہے اگر اختلافات آپس میں ختم نہ ہوئے تو آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن اپنا نام بھی نہیں بچا سکے گی اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ سردارمہتاب احمد خان اگر مسلم لیگ ن کو ضلع اور ہزارہ ڈویژن سمیت صوبہ بھر میںمضبوط دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ صوبہ اور ہزارہ ڈویژن میں گروپ بندی کے بجائے موجودہ صوبائی قیادت کا ساتھ دینا ہوگا تب جاکر مسلم لیگ ن صوبہ کے پی کے اور ہزارہ ڈویژن میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکے گی ۔الیکشن 2018 میں بھی ان کی ہٹ دھرمی کے باعث اس ڈویژن میں بھی مسلم لیگ ن ناکامی سے دوچار ہوئی جس ڈویژن میں وہ 21 نشستوں میں سے 15سے17 نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی تھی دوسری جانب صوبائی جنرل سیکرٹری مرتضی جاوید عباسی بھی سردارمہتاب احمد خان سے شدید اختلافات کے باوجود ان کو بائی پاس کر کے فیصلہ کرنے کے بجائے ہزارہ ڈویژن میں ان کی مشاورت سے تنظیم سازی کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ بلدیاتی انتخابات ہوں یا قومی انتخابات ہو اس میں مسلم لیگ ن کامیاب ہو سکے۔ ایسے حالات میں سردارمہتاب احمد خان کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسلم لیگ ن کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے وہ بڑے سیاستدان ہیں اور اگر انہوں نے اپنی بڑھائی کو قائم رکھنا ہے تو ان چھوٹے چھوٹے عہدوں پر الجھنے کے بجائے اپنے گروپ کے لوگوں کو بھی صرف اس بات کا پابند کریں کہ یہ وقت پارٹی کو مضبوط کرنے کا ہے کیونکہ چاروں اطراف سے مسلم لیگ ن کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے متعد ہونے کی ضرورت ہے اور پارٹی کی موجودہ صوبائی قیادت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ہٹ دھرمی کے بجائے ایسے لوگوں کو آگے لائے جنہوں نے پارٹی کے لئے کچھ کیا ہو اور ایسے لوگوں کو عہدوں سے الگ کر دیا جائے جن کی کارکردگی کچھ نہیں ہے اگر ہزارہ ڈویژن سمیت صوبہ بھر میں مسلم لیگ ن کو 2000 سے پہلے کی سطح پر لانا ہے تو پارٹی قیادت پسند ناپسند کے بجائے۔ میرٹ پر عہدیداروں کو منتخب کرے جو کسی گروپ کا حصہ نہ ہوں بلکہ مسلم لیگ کے ہو صوبائی صدرامیر مقام نے بھی اپنے اضلاع میں اپنے گروپ کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے پارٹی کو نہیں۔ ایسے حالات میں پارٹی قیادت کی بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ایبٹ آباد ہزارہ ڈویژن کا دارالخلافہ ہے اس کے فیصلوں کے اثرات پورے ہزارہ ڈویژن پر پڑتے ہیں۔ اس لئے اس ضلع میں ایسی تنظیم سازی کی جائے جس کے اثرات پورے ہزارہ پر پڑیں تاکہ پورے ہزارہ ڈویژن میں مسلم لیگ ن مضبوط ہو سکے اور اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکے۔