عہد حاضر میں ستم ظریفی یہ ہے کہ قومی سیاست سے شائستگی، تدبر، تحمل اور برداشت کوترک کرکے عدم برداشت، منافرت اور بے ہودگی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کا کنٹینرز کلچر اورز غیرمناسب طرز تخاطب غیر محسوس انداز میں تقویت پا کر ناقابل برداشت حد تک جا پہنچا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ’’اعلیٰ تربیت یافتہ‘‘ وفاقی وزیر بھری محفل میں سینئر صحافی اور مقبول اینکرپرسن کو ذاتی بدتمیزی اور ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بناتا ہے تووفاق اور تین صوبوں میں حکمران سیاسی جماعت کے رہنما اور وزیراعلیٰ کھلے عام اس کو سراہتے ہیں اور ایسا کرتے وقت شرمندہ ہونے کے بجائے احساس تفاخر کا اظہار کرتا ہے۔ اہل سیاست کی یہ روش تمام سنجیدہ اور باشعور حلقوں میں اضطراب اور تشویش بڑھا رہی ہے محب وطن پاکستانی اس قحط الرجال میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو سے بجاطور پر خوش آئند توقعات باندھ رہے ہیں۔ 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران بھی اپنے ہوم ورک، تربیت، فطری اوصاف، اخلاق، معیار اور عمدہ پیرائیہ اظہار کے باعث بلاول بھٹو کو ہر سطح پر پذیرائی ملی۔ مستقبل کے حوالہ سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اب میرٹ کی پاسداری اور رائے عامہ کا احترام سبھی پر واجب ہو جائے گا اور پردہ نشین کنگ میکرز کیلئے بھی عوامی ترجیحات سے انحراف ممکن نہیں رہے گا۔جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے والی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا وژن، سوچ اور عزم ان کی شہادت کے بعد بھی معدوم ہونے کے بجائے مزید تقویت پا رہا ہے۔ بلاول بھٹو اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو، ماموں میرشاہنواز بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو اور والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے عوامی راج کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے ووٹ کی حرمت بحال کرنے کی جدوجہد میں سرگرم عمل ہیں۔ بلاول بھٹو کو نادیدہ قوتوں نے بوجوہ تین عام انتخابات (2018-2013-2008ئ) کی الیکشن مہم میں دانستہ پنجاب آنے سے روکا ، ان کیلئے پنجاب میں انتخابی مہم مشکل بلکہ بسا اوقات ناممکن بنا دی گئی اور اس کیلئے شدت پسند دہشت گردوں کی جانب سے مبینہ دھمکیوں، سکیورٹی رسک اور نیب کے غلط استعمال تک تمام منفی حربے اختیار کیے گئے۔بلاول بھٹو کی حالیہ رابطہ عوام مہم کے دوران پنجاب کے تفصیلی دورہ، پارٹی رہنمائوں، کارکنوں سے ملاقاتوں ، عوامی اجتماعات سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو میں مجموعی تاثر نہایت خوش کن اور امید افزا ہے۔ بلاول بھٹو کا عزم نوید دے رہا ہے کہ اب ہر ایک پر رائے عامہ کا احترام کرنا واجب ہو جائے گا۔
بلاول بھٹو کے پولیٹیکل کل ہوم ورک، عوامی امنگوں کی ترجمانی، مستحسن طرز تخاطب اور جمہوری اقدار کی پاسداری کے عزم نے آلودگی سے متاثرہ قومی سیاست کے مستقبل کے حوالہ سے خوش آئند توقعات کو مزید پختہ کر دیا ہے۔ نت نئے مگر تلخ تر تجربات سے خسارہ میں رہنے والی پاکستانی قوم دودھ کی جلی اور چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پینے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اس عالم میں بلاول بھٹو کے احسن طرز سیاست نے مایوسی کی سرحد پر پہنچی قوم کو امید کی نئی روشن کرن بخشی ہے۔ بلاول بھٹو کا یہ کہنا ہے کہ وہ ن لیگ سے روا رکھے گئے متعصبانہ رویہ کے خلاف ن لیگی قائدین سے بھی آگے بڑھ کر احتجاج کرتے رہیں گے ان کے تدبر، جمہوریت پرستی اور شائستہ طرز سیاست کا آئینہ دار ہے۔ فکر بھٹو کے امین اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی، انقلابی، تحریکی گڑھ پنجاب کے باسیوں میں اس احساس کو بڑھا رہی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی واحد عوامی جماعت ہے جو فیڈریشن کے استحکام اور فلاحی معاشرہ کے قیام کیلئے جماعت ہے جو فیڈریشن کے استحکام اور فلاحی معاشرہ کے قیام کیلئے پہلی بلکہ واحد ترجیح ہے۔ بلاول بھٹو کی رابطہ عوام مہم درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے اور بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ پنجاب آئندہ عام انتخابات میں ماضی قریب کے تمام مغالطوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر پیپلزپارٹی کا سیاسی، انقلابی، نظریاتی قلعہ ثابت ہوگا، خصوصاً پنجاب کے اکثریتی دیہی علاقوں اور جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی سے 1970 کی دہائی والی والہانہ محبت و عقیدت پھر سے امڈ رہی ہے۔ ویل ڈن بلاول بھٹو!