ایک بادشاہ کی چار بیٹیاں تھیں۔بادشاہ کی جان شہزادیوں میں تھی۔ایک دن اس نے اندازہ لگانا چاہا کہ اس کی بیٹیاں اس سے کتنا پیار کرتی ہیں۔ بادشاہ نے سب شہزادیوں سے پوچھا کہ وہ اس سے کتنا پیار کرتی ہیں۔ سب نے اپنی محبت کو زمین و آسمان سے ماپنے کی کوشش کی لیکن سب سے چھوٹی شہزادی کا جواب بہت حیران کن تھا۔اس نے کہا کہ میں آپ سے اتنا پیار کرتی ہوں جتنا پیار انسان کو نمک سے ہوتا ہے۔ چونکہ ہوا ، پانی اور دیگر نعائم فطرت ارزاں ہیں اور ان کی قدر و قیمت طے ہونے میں ہی نہیں آتی لہٰذا بادشاہ کو بھی غصہ آ گیا۔ شاید اسے ’’آٹے میں نمک برابر‘‘ کا محاورہ یاد آ گیا۔اگر بادشاہ کو زخموں پر نمک چھڑکنے کا حکومتی تجربہ ہوتا تو اسے نمک کی افادیت کا خوب اندازہ ہوتا یا پھر نمکیات کی کمی اور زیادتی کے اثرات ہی سن اور دیکھ رکھے ہوتے تو بھی اس کے غصہ کا عالم ایسا نہ ہوتا۔ کہانی تو پھر کہانی ہی ہوتی ہے سو آخر میں پھیکے کھانے کھا کر بادشاہ کو بھی نمک کی افادیت کا احساس ہوا۔ لیکن کہانی میں بین السطور نمک کے تناسب کی اہمیت کا احساس موجود تھا۔ ہمارے یہاں سیاست میں بھی کلراٹھی زمینوں کے ہی مسائل موجود ہیں جن کی تشخیص کے لیے نمک حلالی اور نمک حرام کرنا کے محاورات اور روایات سے کی جا سکتی ہے لیکن عوام کی صورت ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے یعنی …؎
عشرت پارہ دل زخم تمنا کھانا
لذت زخم جگر غرق نمکداں ہونا
عام طور پر پانی نہروں کے ذریعے زمین کو سیراب کرتا ہے اور اس کا زیادہ اور غلط استعمال بھی زمین کیلئے مسائل پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح سیاسی پے در پے فیصلے عوام کے زخموں پر ہر بار نمک چھڑکنے کا ہی کام کرتے ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے جو زیر زمین پانی استعمال کیا جا رہا ہے وہ نمکین ہی نہیں زہریلا بھی ہے۔ان فیصلوں کے اثرات بخارات بن کر اْڑ جاتے ہے لیکن اپنے ساتھ زمین کی نچلی تہوں سے لائے ہوئے نمکیات کو زمین کی اوپر والی سطح پر چھوڑ جاتے ہیں جو عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے ذریعے انھیں تازہ رکھتے ہیں۔زمینوں میں حل پذیر نمکیات بددیانتی بن کر تہذیبی اکائی میں ضم ہو چکے ہیں۔ زمین کا کالا کلر دلوں میں گھر بنا چکا ہے۔ موجودہ فیصلہ ساز شاید لفظوں کے ہیر پھیر کو ہی تبدیلی سمجھتے ہیں۔راستے کے گڑھے بھرنے کے بجائے نام کی تبدیلی کو حقیقی تبدیلی کا نام دینے والوں کو تماشا گر کا نام دیا جا سکتا ہے. اسی لیے تو روٹی مہنگی ہونے پر بریڈ اور آلو مہنگے ہونے پر ٹماٹر پکانے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔اب یہ مشورے ناسمجھی کی حدود میں داخل ہو کر مستقبل سے کھیلنے لگے ہیں۔صرف کالجز کے نام تبدیل کرنے سے تعلیمی عمل کی بہتری کا یقین دلانا نہ صرف مضحکہ خیز سوچ ہے بلکہ اس پورے عمل سے استاد کو منہا کرنا سفلہ پن کی انتہا ہے۔ عوام کی نظریں ہر بار سرکار کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بن کر اٹھتی ہیں. روٹی، کپڑا اور مکان کے خواب دکھانے والے عوام کی توقعات پر پورا نہ بھی اتریں تو آئندہ ووٹ بھی ان کے کاسے میں گرتے ہیں. خالی پیٹ کے ساتھ تین وقت کاٹنے والی عوام کے مسائل شکم سیروں کیلئے مذاق ہی ہو سکتا ہے جو گاہے گاہے چٹکیاں لیتا ہے۔ ریاست مدینہ کے دعوے دار بھی نہیں جانتے کہ بھوک کیا ہے. اب حکومت اور اپوزیشن ایک ہی زمین پر ہیں۔ انڈے کلو میں تولے جائیں یا ووٹ پر دستخط کیے جائیں۔ غریب اس مذاق پر تاکید پیٹتے ہیں کہ واہ کیا پھبتی کسی ہے۔عوام سے ووٹ مانگنے والے اپنے ووٹ ضائع کر کے عوام کی تضحیک کرتے ہیں۔وزارتوں میں تبدیلی کا عمل ہو تو بھی اسی ادلا بدلی سے کام لیا جاتا ہے۔ ہم حقیقی تبدیلی سے نا واقف ہیں اور محض جملہ سازی کی صنعت کو پانی دینا جانتے ہیں۔جس طرح حل پذیر نمکیات پانی کے ذریعے سطح زمین سے نیچے چلے جاتے ہیںاسی طرح ہمارے فیصلوں کے ثمرات زمین کی جڑیں کھوکھلی کیے جارہے ہیں۔ہمارے ہاں اصلاح کیلئے نہ تو بیماری کی تشخیص کا رواج ہے اور نہ ہی زمین کی پہچان۔ جس طرح کاشتکار کو ان مسائل کی بروقت نشاندہی اور ان سے آگاہ ہونا ضروری ہے تاکہ زمینوں کی صحت اور زرخیزی کو بحال کیا جا سکے۔اسی طرح یہ معلوم کرنا نہایت ضروری ہے کہ فیصلے میں موجود نمک کی مقدار ذائقے کیلئے ہے، زخموں کیلئے نہیں۔ جس طرح مٹی کے تجزیہ سے زمین میں موجود کلر کی مقدار،اور اس کی بحالی کیلئے طریقہ علاج معلوم ہو جاتا ہیاسی طرح زمین جس ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب کی جا رہی ہو تو ٹیوب ویل کے پانی کا تجزیہ بھی کروانا بھی ضروری ہوتا ہے۔