اشد ضرورت برائے وزارت تماشہ

آج کی تحریر ان تمام لوگوں کے نام کے جن کے مسائل گزشتہ ایک ہفتہ میں کھل کر سامنے آئے اور ہمیں معلوم پڑا کے ان کی زندگی کتنی مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور پھر کیا تھا اہل ثروت نے اپنی اپنی تجوریوں کے منہ کھول دئیے اور جس حد تک ممکن تھا ان کے مسائل کا حل ایک ہی بار میں کر دیا۔ہمارے یہاں گزشتہ کوئی چار پانچ ماہ سے شطرنج کے بڑے مقابلے کا انتظار تھا جس کا میدان کل سجا۔ ویسے اس کھیل میں تیز اور شاطر دماغ والے کھلاڑی ہی اچھا کھیل سکتے ہیں جو ہر چال کے ساتھ بدلتی ہوئی صوتحال کو دیکھ کر اپنا پینترا بدل لیتے ہیں ۔مگر اس دفعہ ایک سادہ لوح انسان شطرنج کی میز پر آ بیٹھا۔ سامنے حریف بہت ہی شاطر اور گھاتک تھے اور جیسے کے پہلے کہا کہ اس کھیل میں جیت شاطر اور تیز دماغ والے کی ہوتی ہے تو ایسا ہی ہوا۔ اب اگر کوئی بندہ میرے اس کھیل کو کل ملک کے سب سے مقدس ایوان میں رچنے والے چناو سے جوڑے تو جناب یہ صرف ایک اتفاق ہے اور کچھ نہیں ۔ مگر ایک بات کہتا جاوں کے شطرنج چاہے کتنی ہی ہوشیاری اور چلاکی سے کھیلی جانے والی گیم کیوں نا ہو جو گیم پچھلے ایک ہفتے میں ہمارے ایوان بالا میں کھیلی گئی اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔بیچارے کھلاڑی جو زیادہ پر اعتماد لگ رہے تھے آخری موقع پر ان کی بازی پلٹ دی گئی اور کھیلنے والوں نے تو ایسا شرینتررچا کے وزیر اور بادشاہ جو خود کو جیتا ہوا سمجھ رہے تھے ان کو اپنے ہی پیادوں کے ہاتھوں سے پٹوا دیا۔ مگر اس کھیل میں ایسے ہی کچھ پیادوں کی چاندی ہو گئی اورانہوں نے اپنے اپنے بھڑولے بھر لئے اور ان کے مسائل یا تو حل کر دئے گئے یا ان کے حل کا وعدہ کر دیا گیا ۔ ویسے ٹھیک والی مبارک ان سب کو کہ جن کے گھر ’’دانے‘‘ پڑے، باقی ہم سب تو تماشہ دیکھنے والوں میں سے تھے ، اور ہر بندہ اپنی سوچ اور اپنے اندازے کے مطابق صرف تُکا ہی لگا سکتا ہے کہ کون کتنے دانے لے کر مانا ہو گا۔ اور دینے والے بھی کیا کمال تھے کہ جنہوں نے اپنے گوداموں کے در کھول دئیے اور جسے جتنا چاہیے تھا دیا۔ ماشااللہ کیا انتظام کیا مگر آپ کو نہیں لگتا ہم سب تماشائی جو دن رات ٹی وی پر انہیں دیکھتے ہیں اور ٹویٹر پر ان کو ٹرینڈ بناتے ہیں ہماری حیثیت پیادوں والی بھی نہیں ہے ۔ اس الیکشن سے ایک بات واضح ہو گئی کہ وہ محاورہ جو ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ اب یہ پرانا ہو گیا ہے اب ہمیں نئے محاوروں کے ساتھ چلنا ہو گا جیسے’’جنہاں دے گھر دانے ، انہاں دے کملے وی سیانے‘‘ اور دیکھیں یہاں کملوں نے بازی پلٹ دی اور اچھے خاصے بھلے مانس بندوں کو کملا کے رکھ دیا۔اور اس کے بعد ایک اور نیا تماشہ لگا ہوا ہے اور سب ناچ رہے ہیں ۔ عام بندہ خوش بھی ہے اور ناخوش بھی۔ خوش اس بات پر کہ جناب یہاں سب بکتا ہے اور ہر کسی کی قیمت ہے اور ناخوش اس بات پر کہ اس کی کوئی قیمت نہیں ہے اورنا اس کی حیثیت کہ وہ کسی کو خرید سکے۔ جن کی قیمت لگی وہ بھی اترا رہے ہیں کہ ہمارا ضمیر اب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم جیسی زندگی گزار رہے ہیں ویسی ہی گزاریں ، ان دانوں اور محلوں کے جن کے خواب ہم نے دیکھے ہیں ہمارا بھی حق ہے اور ضمیر سے اجازت لے کر اپنا ضمیر ہی تو بیچنا ہے اور جب ضمیر نا ہو گا تو شکایت کیسی، گلہ کیسا ملامت کیسی؟ہمارے ملک کا ایوان بالا کا چناو ایک تماشہ سا بن کے رہ گیا ہے ، یہاں سب کو عادت ہے ایک دوسرے کو تماشہ بنانے کی اور پھر اس پر ڈگڈگی بجانے کی ۔ کبھی ڈاکٹروں کا تماشہ کبھی وکیلوں کا ، کبھی ملازمین کا تماشہ تو کبھی کسی اور کا ۔ نیز ہر کوئی ایک دوجے کا تماشہ لگائی بیٹھا ہے ۔ یہ تماشہ رک بھی سکتا تھا اگر منصف ایک واضح فیصلہ دے دیتا اور کہتا کہ بند کرو تماشے اور اب جو کھیلنا ہے وہ ایمانداری سے کھیلنا ہے اور کوئی بھی اب اس ایوان کو مزید مچھلی منڈی نہیں بنائے گا۔ مگر جو فیصلہ آیا وہ بھی مبہم کے تماشہ لگا بھی سکتے اور دل کرے تو نا لگاو ۔ ریفری کو بول دیا تمہاری مرضی ہے کہ جیسے تم چاہو ویسے کرو اور پھر کیا کمال کا تماشہ دیکھنے کو ملا ۔ کملوں نے رج کے دانے بانٹ اور سب نے دیکھا بھی مگر ہمیں اس سے کیا۔ کیونکہ اصل مزا تو تماشے میں تھا ۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک وزارت تماشہ بھی بنا دے جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ لطف اور تماش بینی کے مواقع فراہم کر سکے اور لوگوں کا دل لگا رہے کیونکہ ان کو چاہیے انٹر ٹینمنٹ ،انٹرٹینمنٹ اور صرف انٹر ٹینمنٹ ۔اس لئے اس وزارت کا قیام ناگزیر ہے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ جب ہم اپنے اس ملک کو ہی تماشہ بنا دیں گے۔ اللہ کے لئے ہوش کے ناخن لیں اور ملک کو دنیا میں رسوا ہونے سے بچالیں۔ ایک لنگڑی لولی اور بے جان ’’جمہور‘‘’’ریت‘‘ کوپالنے ، پروان چڑھانے اور بچانے کے چکر میں ملک کا دیوالیہ نا کریں۔ شکریہ 

ای پیپر دی نیشن